+ -

عن رَبيعة بن عبد الله بن الهُدَيْر التَّيْمِيِّ: أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قرأ يوم الجمعة على المِنْبَر بسورة النَّحل حتى إذا جاء السَّجدة نَزل، فسجد وسجد الناس حتى إذا كانت الجمعة القَابِلة قَرأ بها، حتى إذا جاء السَّجدة، قال: «يا أيُّها الناس إنا نَمُرُّ بالسُّجود، فمن سجد، فقد أصاب ومن لم يسجد، فلا إثم عليه ولم يَسجد عمر رضي الله عنه » وفي رواية: «إن الله لم يَفرض السُّجود إلا أن نشاء».
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...

ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر تیمی بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی، جب سجدہ کی آیت آئی تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورت پڑھی جب سجدہ کی آیت آئى تو کہنے لگے: ”اے لوگو ! یقیناً ہم آیاتِ سجود سے گزرتے ہیں تو جس نے سجدہٌ تلاوت کیا اس نے اچھا کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں“، عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا۔ اورایک روایت میں ہے کہ: ”اللہ تعالیٰ نے سجدۂ تلاوت فرض نہیں کیا، البتہ اگر قاری چاہے (تو کر لے)۔“
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

شرح

حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی۔ جب سجدہ کی اس آیت: ﴿وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَايَسْتَكْبِرُونَ، يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾} ”یقینا آسمان وزمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں“۔ (سورہ نحل: 49-50) پر پہنچے تو اترے اور سجدہ کیا، اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا، یعنی منبر پر سے اترے اورزمین پر سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ زمین پرسجدہ کیا۔ پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو اس کی تلاوت کی، یعنی سورۃ النحل کی تلاوت کی اور جب سجدہ پر پہنچے، یعنی جب سجدہ کی آیت پڑھی اور لوگ سجدے کے لئے تیار ہو گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیا جیسا کہ مؤطا کی روایت میں ہے کہ: لوگ سجدے کے لئے تیار ہو گئے عمر رضی اللہ عنہ نےکہا تم اپنی اپنی حالت پر برقرار رہو، اللہ تعالیٰ نے اسے ہم پر فرض نہیں کیا ہے مگر یہ کہ ہم (از خود سجدہ کرنا) چاہیں اور انہوں نے سجدہ نہیں کیا اور لوگوں کو بھی سجدہ کرنے سے روک دیا پھر عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: اے لوگو ! جب ہمارا گزر سجدہ کی آیت پر سے ہو تو پھر جس نے سجدہ کیا اس نے اچھا کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یعنی ہم سجدہ کی آیات کو پڑھتے ہیں تو جو کوئی سجدہ کرے اس نے سنت کو پا لیا اور جو سجدہ نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا، اس چیز کو بیان کرنے کے لئے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے سجدہ فرض نہیں کیا مگر جب ہم چاہیں، یعنی اس کو ہمارےاوپر واجب نہیں کیا مگر یہ کہ ہم سجدہ کرنا چاہیں تو کریں اور اگر ہم نہ کرنا چاہیں تو سجدہ نہ کریں۔ اورایک روایت میں ہے: اے لوگو! ہمیں سجدہ کا حکم نہیں دیا گیا ہے تو خلاصہ یہ ہے کہ یہ اثر امیرالمؤمنین سے منقول ہے جسے انہوں نے دورانِ خطبہ تمام صحابہ کی موجودگی میں کہا تھا اور ان میں سے کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔ چناں چہ یہ عدم مخالفت پر دلالت کرتا ہے اور ایسی صورت میں صحابی کا قول حجت ہوگا، بالخصوص جب وہ صحابی خلیفہ راشد ہوں جو کہ سنت کی اتباع کے سب سے زیادہ حق دار ہیں، اور چوں کہ یہ صحابہ کی موجودگی میں ہوا اس لیے یہ اجماع قرار پائے گا۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان تجالوج
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔