عن عائشة رضي الله عنها ، قالت: أُصِيب سعد يوم الخندق، رماه رجل من قريش، يقال له حبان بن الْعَرِقَةِ وهو حبان بن قيس، من بني معيص بن عامر بن لؤي رماه في الأَكْحَلِ ، فضرب النبي صلى الله عليه وسلم خَيمة في المسجد ليعوده من قريب، فلما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من الخندق وضع السلاح واغتسل، فأتاه جبريل -عليه السلام- وهو ينفض رأسه من الغُبار، فقال: " قد وضعتَ السلاح، والله ما وضعتُه، اخرج إليهم، قال النبي صلى الله عليه وسلم : فأين فأشار إلى بني قُرَيظة " فأتاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزلوا على حُكمه، فردَّ الحُكمَ إلى سعد، قال: فإني أحكم فيهم: أن تُقتل المقاتِلة، وأن تُسبى النساء والذُّرِّية، وأن تُقسم أموالهم قال هشام، فأخبرني أبي، عن عائشة: أن سعدا قال: اللهم إنك تعلم أنه ليس أحد أحب إلي أن أُجاهدهم فيك، من قوم كذَّبوا رسولك صلى الله عليه وسلم وأخرجوه، اللهم فإني أظن أنك قد وضعتَ الحرب بيننا وبينهم، فإن كان بقي من حرب قريش شيء فأَبْقِني له، حتى أجاهدهم فيك، وإن كنتَ وضعتَ الحرب فافْجُرها واجعل موتتي فيها، فانفجرت من لَبَّته فلم يَرْعَهم، وفي المسجد خيمة من بني غِفَار، إلا الدم يسيل إليهم، فقالوا: يا أهل الخيمة، ما هذا الذي يأتينا من قبلكم؟ فإذا سعد يَغْذو جرحه دما، فمات منها رضي الله عنه .
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: غزوۂ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے، قبیلۂ قریش کے حبان بن عرقۃ نامی ایک شخص نے - جو کہ قبیلۂ معیص بن عامر بن لؤی سے تعلق رکھنے والا حبان بن قیس ہے - ان پر تیر مارا، اس نے انہیں بازو کی بڑی رگ میں تیر مارا تھا، تو نبی ﷺ نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگوایا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔ پھر جب آپ ﷺ غزوۂ خندق سے واپس ہوئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو جبریل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس آئے وہ اپنے سر سےگرد و غبار جھاڑ رہے تھے۔ انہوں نے نبی ﷺ سے کہا آپ نے ہتھیار رکھ دیے؟ اللہ کی قسم ! ہم نے اسلحہ نہیں اتارا، ان کی طرف نکلیے۔ نبی ﷺ نے دریافت فرمایاکہ: ’’کہاں؟‘‘ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ بنو قریظہ کے پاس پہنچے، وہ آپ ﷺ کے فیصلہ پر اتر آئے، تو آپ ﷺ نےسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کا حکَم بنا یا، چناں چہ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ان کے بارے میں فیصلہ کر تاہوں کہ ان کے جنگ جو افراد قتل کر دیے جائیں، عورتیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کے اموال تقسیم کر لیے جائیں۔ ہشام نے بیان کیا کہ پھر مجھے میرے والد نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تھی: ’’اے اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے تیرے راستے میں، اس قوم کے خلاف جہاد سے بڑھ کر کسی کے خلاف جہاد کرنا محبوب نہیں جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انہیں نکال باہر کیا۔ اے اللہ! میں سمجھتا ہوں کہ اب تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کو ختم کر دیا ہے۔ پس اگر قریش کی جنگ کچھ باقی رہ گئی ہو تو مجھے اس کے لیے باقی رکھ تاکہ میں ان سے تیرے راستے میں جہاد کروں، اور اگر لڑائی تو نے ختم کر دی ہے تو اسی زخم کو جاری کرکے اسے میری موت کا سبب بنادے۔ چناں چہ ان کے سینے کا زخم پھوٹ کر بہنے لگا، مسجد میں بنو غفار کا بھی ایک خیمہ تھاـ وہ یہ دیکھ کر چونکے کہ ان کی جانب خون بہہ کر آ رہا ہے۔نے ہی خوف زدہ کر دیاجو ان کی طرف بہ رہا تھا، انہوں نے پوچھا: اے خیمے والو! یہ کیا ہے جو تمہاری جانب سے ہماری طرف آرہا ہے؟ دیکھا تو سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون کی دھار رواں تھی۔ پھر اسی سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ اللہ ان سےراضی ہو۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
حدیث شریف میں صحابیٔ جلیل سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان ہے، اس طور پر کہ دورانِ جہاد وہ زخمی ہو گئے تو ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا گیا تاکہ نبی ﷺ ان کی عیادت کر سکیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے بنو قریظہ کے بارے میں جو فیصلہ دیا وہ فیصلہ ساتوں آسمانوں کے اوپر سے ان کے بارے میں اللہ کے فیصلے کے عین موافق تھا، اور وہ یہ کہ جتنے لوگ ان کے جنگ کرنے کے قابل ہیں وہ قتل کر دیے جائیں، ان کی عورتیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کا مال ضبط کر لیا جائے، اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے ساتھ ان کی خیانت اور عہد شکنی اورخندق کے جنگی حالات اور قریش کے مدینہ کے اطراف جم گھٹے سے غلط فائدہ اٹھانے کے سبب تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری فضیلت ان کی دعا سے آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالی انہیں باحیات رکھے اگر قریش اور مسلمانوں کے مابین لڑائی ابھی باقی ہو اور اگر قریش کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی اپنی انتہاء کو پہنچ گئی ہے تو میرے ان زخموں کو پھر سے ہرا کر دے جو خندق کے دن مجھے لاحق ہوئے اور اسی میں میری موت واقع کر دے۔ (اور ایسا ہی ہوا)