عن ميمونة رضي الله عنها قالت: «صَبَبْتُ للنبي صلى الله عليه وسلم غُسْلا، فَأَفْرَغ بيمينه على يساره فغَسَلَهُما، ثم غَسل فَرْجَه، ثم قال بِيَدِه الأرض فَمَسَحَها بالتُّراب، ثم غَسلها، ثم تَمَضْمَضَ واسْتَنْشَقَ، ثم غَسَل وجْهَه، وأفَاضَ على رأسِه، ثم تَنَحَّى، فغسل قَدَمَيه، ثم أُتِيَ بمنْدِيل فلم يَنْفُضْ بها».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
میمونہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے پہلے پانی کو دائیں ہاتھ سے بائیں پر بہا یا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنی شرم گاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر مار کر مٹی کے ساتھ اسے رگڑا اور پھر اسے دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرے کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف ہو کر دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو رومال دیا گیا۔ لیکن آپ ﷺ نے اس سے پانی کو خشک نہیں کیا۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
حدیث کا مفہوم: میمونہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے لیے پانی تیار کیا۔ آپ ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ سے برتن کو تھاما اور اپنے بائیں ہاتھ پر انڈیلا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ساتھ دونوں ہاتھوں کو دھویا؛ کیوں کہ ہاتھ پانی منتقل کرنے کا آلہ ہیں۔ چنانچہ ان کی اچھی طرح سے طہارت و صفائی کے لیے آپ ﷺ نے انھیں دھونا پسند فرمایا۔ ”دونوں ہاتھوں کو دھویا“ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے : آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دو یا تین دفعہ دھویا۔ اپنے ہاتھ دھو لینے کے بعد شرم گاہ پر منی وغیرہ کی گندگی کے اثرات کو دور کرنے لیے آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ کو دھویا۔ یہاں شرم گاہ سے مراد سامنے کی شرم گاہ ہے، جس کی وضاحت بخاری شریف کی روایت سے ہوتی ہے (جس میں یہ الفاظ ہیں کہ): ”پھر آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اوراس سے اپنے عضو تناسل كو دھويا“۔ ”ثم قال بِيَدِه الأرض“ یعنی اپنے ہاتھ کو زمین پر مارا۔ یہاں ہاتھ سے مراد بایاں ہاتھ ہے، جس کی وضاحت بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ: پھر آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور زور سے رگڑا۔ آپ ﷺ نے اسے مٹی کے ساتھ رگڑا، تا کہ اس کے ساتھ لگی گندگی اور بدبو زائل ہو جائے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو اس پر لگی مٹی اور میل کچیل دور کرنے کے لیے دھویا۔ اپنے ہاتھوں سے لگے میل کچیل کو دھولینے اور صاف کر لینے کے بعد آپ ﷺ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور پھر اپنا چہرہ مبارک دھویا۔ اس حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ آپ ﷺ نے وضو بھی فرمایا، تاہم صحیح بخاری و صحیح مسلم میں میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے نماز کے لیے کیے جانے والے وضو کی طرح وضو فرمایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایسے ہی مروی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے سر پر پانی ڈالا اور ایک اور روایت میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے اپنے سر پر تین چلو ہتھیلی بھر کر ڈالے اور پھر سارےجسم کو دھویا۔ ایک دفعہ پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے، بشرطے کہ پانی سارے جسم تک پہنچ جائے۔ پھر آپ ﷺ نے غسل کی جگہ سے دور ایک دوسری جانب ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، یعنی جب آپ ﷺ اپنے وضو اور غسل سے فارغ ہو چکے، تو آپ ﷺ نے دوسری دفعہ اپنے پاؤں دھوئے۔ پھر آپ ﷺ کے پاس رومال لایا گیا، تو آپ ﷺ نے پانی کی تری کو اس سے خشک نہ کیا اور نہ ہی اس سے پونچھا۔ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک اور حدیث میں ہے : پھر میں آپ ﷺ کے پاس رومال لائی، تو آپ ﷺ نے اسے واپس کر دیا۔ ایک اور روایت میں ہے: آپ ﷺ کے پاس ایک رومال لایا گیا، لیکن آپ ﷺ نے اسے چھویا تک نہیں اور اس طرح سے پانی جھٹکنے لگے۔