عن حُميد بن عبد الرحمن: أنه سمع معاوية رضي الله عنه عام حَجَّ على المِنْبَر، وتناول قُصَّة من شَعْرٍ كانت في يَدِ حَرَسِيٍّ، فقال: يا أهل المدينة أين عُلَمَاؤُكُمْ؟! سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يَنْهَى عن مثل هذه، ويقول: «إنما هَلَكَت بَنُو إسرائيل حين اتَّخَذَهَا نساؤُهُم».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے حج کے سال میں سنا وہ مدینہ منورہ میں منبر پر یہ فرما رہے تھے، انہوں نے بالوں کی ایک چوٹی جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھی لے کر کہا: مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ اس طرح بال بنانے سے منع فرما رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بنی اسرائیل اس وقت تباہ ہو گئے جب ان کی عورتوں نے اس طرح اپنے بال سنوارنے شروع کر دیے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
حمید بن عبد الرحمٰن بن عوف رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حج کے سال منبر پر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سنا، ان کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گھچا تھا، یہ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے بالوں کا مجموعہ تھا جو کہ ان کی کسی چوکیداری کرنے والے خادم کے ہاتھ میں تھا۔ فرمایا اے اہلِ مدینہ تمہارے علماء کہاں ہیں؟ یہ انکار کے قبیل سے ہے کہ انہوں نے لوگوں کو اس بُرائی سے منع کرنے میں کوتاہی کی اور اس (ممنوع شے) کو تبدیل کرنے سے غفلت برتی۔پھر فرمایا کہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے بالوں کو گوند کر اس طرح کے بال بنانا شروع کردیا تو اللہ نے انہیں ہلاک کردیا، وہ تمام لوگ ہلاک ہوگئے، اس لیے کہ وہ بُرائی کا اقرار کرتے تھے اور ساتھ ہی بُرائی کرنے والوں کو اپنے ساتھ ملاتے تھے۔