عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قلنا يا رسولَ الله، هل نرى ربَّنا يوم القيامة؟ قال: «هل تُضَارُّون في رؤية الشمس والقمر إذا كانت صَحْوًا؟»، قلنا: لا، قال: «فإنكم لا تُضَارُّون في رؤية ربِّكم يومئذ، إلا كما تُضَارُّون في رؤيتهما» ثم قال: «ينادي منادٍ: ليذهب كلُّ قوم إلى ما كانوا يعبدون، فيذهب أصحابُ الصليب مع صليبهم، وأصحابُ الأوثان مع أوثانهم، وأصحابُ كلِّ آلهةٍ مع آلهتهم، حتى يبقى من كان يعبد اللهَ، مِن بَرٍّ أو فاجر، وغُبَّرات من أهل الكتاب، ثم يؤتى بجهنم تعرضُ كأنها سَرابٌ، فيقال لليهود: ما كنتم تعبدون؟ قالوا: كنا نعبد عُزَير ابنَ الله، فيقال: كذبتم، لم يكن لله صاحبة ولا ولد، فما تريدون؟ قالوا: نريد أن تسقيَنا، فيقال: اشربوا، فيتساقطون في جهنم، ثم يقال للنصارى: ما كنتم تعبدون؟ فيقولون: كنا نعبد المسيحَ ابن الله، فيقال: كذبتم، لم يكن لله صاحبة، ولا ولد، فما تريدون؟ فيقولون: نريد أن تسقيَنا، فيقال: اشربوا فيتساقطون في جهنم، حتى يبقى من كان يعبد الله من بَرٍّ أو فاجر، فيقال لهم: ما يحبسكم وقد ذهب الناس؟ فيقولون: فارقناهم، ونحن أحوجُ منا إليه اليوم، وإنَّا سمعنا مناديًا ينادي: ليَلْحقْ كلُّ قوم بما كانوا يعبدون، وإنما ننتظر ربَّنا، قال: فيأتيهم الجَبَّار في صورة غير صورتِه التي رأوه فيها أولَ مرة، فيقول: أنا ربُّكم، فيقولون: أنت ربُّنا، فلا يُكَلِّمُه إلا الأنبياء، فيقول: هل بينكم وبينه آيةٌ تعرفونه؟ فيقولون: الساق، فيَكشِفُ عن ساقه، فيسجد له كلُّ مؤمن، ويبقى من كان يسجد لله رِياءً وسُمْعَة، فيذهب كيما يسجد، فيعود ظهرُه طَبَقًا واحدًا، ثم يؤتى بالجسر فيُجْعَل بين ظَهْرَي جهنم»، قلنا: يا رسول الله، وما الجسر؟ قال: «مَدْحَضةٌ مَزَلَّةٌ، عليه خطاطيفُ وكَلاليبُ، وحَسَكَةٌ مُفَلْطَحَةٌ لها شوكةٌ عُقَيْفاء تكون بنَجْد، يقال لها: السَّعْدان، المؤمن عليها كالطَّرْف وكالبَرْق وكالرِّيح، وكأَجاويد الخيل والرِّكاب، فناجٍ مُسَلَّمٌ، وناجٍ مَخْدوشٌ، ومَكْدُوسٌ في نار جهنم، حتى يمرَّ آخرُهم يسحب سحبًا، فما أنتم بأشد لي مُناشدةً في الحق قد تبيَّن لكم من المؤمن يومئذ للجَبَّار، وإذا رأَوْا أنهم قد نَجَوْا، في إخوانهم، يقولون: ربنا إخواننا، كانوا يصلون معنا، ويصومون معنا، ويعملون معنا، فيقول الله تعالى : اذهبوا، فمن وجدتُم في قلبه مِثْقالُ دِينار من إيمان فأخرجوه، ويُحَرِّمُ اللهُ صُوَرَهم على النار، فيأتونهم وبعضُهم قد غاب في النار إلى قدمِه، وإلى أنصاف ساقَيْه، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمَن وجدتُم في قلبه مِثْقال نصف دينار فأخرجوه، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مِثْقال ذرة من إيمان فأخرجوه، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا» قال أبو سعيد: فإنْ لم تُصَدِّقوني فاقرءوا: {إنَّ اللهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وإنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا} «فيشفعُ النبيُّون والملائكة والمؤمنون، فيقول الجَبَّار: بَقِيَتْ شفاعتي، فيَقْبِض قَبْضَةً من النار، فيُخْرِجُ أقوامًا قدِ امْتَحَشُوا، فيُلْقَوْن في نهرٍ بأفواه الجنة، يقال له: ماء الحياة، فيَنْبُتون في حافَّتَيْه كما تَنْبُتُ الحِبَّة في حَمِيل السَّيْل، قد رأيتُموها إلى جانب الصَّخْرة، وإلى جانب الشجرة، فما كان إلى الشمس منها كان أخضر، وما كان منها إلى الظِّلِّ كان أبيض، فيخرجون كأنَّهم اللؤلؤ، فيُجعل في رقابهم الخَوَاتيم، فيَدخلون الجنة، فيقول أهل الجنة: هؤلاء عُتَقاءُ الرحمن، أدخلهم الجنةَ بغير عَمَلٍ عملوه، ولا خيرٍ قَدَّموه، فيقال لهم: لكم ما رأيتم ومثلُه معه».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم کو سورج اور چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے جب کہ آسمان صاف ہو؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایاـ ’’اس دن تمہیں اپنے پروردگار کو دیکھنے میں اتنی ہی تکلیف ہوگی جتنی کہ ان دونوں (سورج اور چاند) کے دیکھنے میں ہوتی ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺنے فرمایا: ’’ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ہر قوم اس چیز کی طرف چلی جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ، بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اورجھوٹے معبودوں کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ ہو لیں گے۔ یہاں تک کہ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں يا بد اور اہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے۔ پھر دوزخ سامنے لائی جائے گی وہ ایسی (چمکدار ہو گی )جیسے سراب ہوتا ہے۔ پھر یہودیوں سے کہا جائے گا کہ تم کس کے پوجا کرتے تھے؟۔ وہ کہیں گے کہ ہم عزیر (علیہ السلام) کی پوجا کرتے تھے جو اللہ کے بیٹے ہیں۔ انہیں جواب ملے گا: تم جھوٹے ہو۔ اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم پانی پینا چاہتے ہیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیو۔ (وہ اس چمکتی ریت کی مانند جہنم کی طرف اسے پانی جان کر چل پڑیں گے) اور جہنم کے اندر جا گریں گے۔ پھر نصاریٰ سے کہا جائے گا: تم کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی پوجا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو۔ اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد، بتاؤ اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں پانی پلائیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ پی لو۔ چنانچہ یہ بھی جہنم میں جا گریں گے۔ یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے خواہ نیک ہوں یا بد۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم ان سے اس وقت جدا ہو گئے تھے جب کہ ہمیں ان کی زیادہ ضر ورت تھی۔ ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی۔ چنانچہ ہم تو بس اپنے رب کے منتظر ہیں (کیونکہ ہم اسی کی عبادت کرتے تھے)۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ پھر اللہ (جبار) ان کے سامنے اس صورت کی بجائے کسی دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور اللہ تعالی کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔ انبیاء کے سوا اور کوئی بھی اللہ سے بات نہیں کرے گا۔ الله تعالی فرمائے گا: کیا تمہیں کسی ایسی نشانی کا علم ہے جس سے تم اپنے رب کو پہچان لو؟ وہ کہیں گے کہ ”ساق“ (پنڈلی)۔ اس پر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دے گا تو ہر مومن اس کے سامنے سجدہ میں گر جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے اسے سجدہ کیا کرتے تھے۔ وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح (سخت) ہوکر رہ جائے گی۔ پھر پل صراط لایا جائے گا اور جہنم کی پشت پر لا کر رکھا جائے گا۔ ہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! پل کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک پھسلنے اور گرنے کی جگہ ہے، اس پر درانتیاں،آنکڑے اور چوڑے چوڑے کانٹے ہوں گے جن کے سر اس سعدان جھاڑی کے کانٹوں کی طرح خم دار ہوں گے جو نجد کے علاقے میں پائی جاتی ہے۔ مومن اس پر سے پلک جھپکنےمیں، بجلی کی سی تیزی سے، ہوا کی مانند اور تیز رفتار عمدہ گھوڑوں اور اونٹوں کی طرح گزر جائیں گے۔ ان میں سے بعض تو صحیح سلامت نجات پا جائیں گے، بعض زخمی تو ہوں گے لیکن بچ جائیں گے اور بعض اوندھے منہ جہنم میں جا گریں گے۔ یہاں تک کہ آخری شخص اس پر سے گھسٹتے ہوئے گزرے گا۔ تم لوگ آج کسی حق كے لیے جس طرح مجھ سے مطالبہ اور درخواست کرتے ہو اس دن اللہ سے مومنين اس سے بھی زیادہ شد ومد كے ساتھ مطالبہ اور درخواست کريں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات عطا فرما)۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے دوزخ سے نکال لو۔ اور اللہ ان کے چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں گے کہ بعض لوگ تو جہنم میں اپنے پاؤں اور آدھی پنڈلیوں تک غرق ہیں۔ جنہیں وہ پہچان لیں گے انہیں دوزخ سے نکال لیں گے۔ پھر واپس آئیں گے تو اللہ ان سے فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکال لیں گے۔ پھر وہ واپس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ وہ جسے پہچان پائیں گے اسے نکال لائیں گے۔” ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم میری تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھو: ﴿إنَّ اللهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وإنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا﴾ ”اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، اگر نیکی ہے تو اسے بڑھا کر کئی گنا کر دیتا ہے“۔ اس کے بعد انبیاء، فرشتے اور مومنین شفاعت کریں گےاور اللہ تعالی کا ارشاد ہو گا کہ اب میری شفاعت باقی رہ گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھر کر لے کر ایسے لوگوں کو نکالے گا جو جھلس کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔ انہیں جنت کے کناروں پر موجود ایک نہر میں ڈال دیا جائے گا جسے آب حیات کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ اس کے کنارے اس طرح تر و تازہ ہو جائیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ ابھر آتا ہے۔ تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا کہ اس کے جس حصے پر دھوپ پڑتی رہتی ہے اس پر سبزا ابھرتا ہے اور جس حصے پر سایہ ہوتا ہے وہ روکھا رہ جاتا ہے۔ جب وہ نکلیں گے تو یوں لگیں گے جیسے موتی ہوں۔ ان کی گردنوں پر مہریں لگا دی جائیں گے (کہ یہ اللہ کے آزاد کردہ ہیں)۔ پھر انہیں جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ اہل جنت کہیں گے: یہ ”عتقاء الرحمن“ (اللہ کے آزاد کردہ لوگ) ہیں۔ انہوں نے نہ تو کوئی عمل کیا تھا اور نہ ہی کوئی نیکی آگے بھیجی تھی لیکن اللہ نے پھر بھی انہیں جنت میں داخل کر دیا۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جو کچھ دیکھ رہے ہو وہ سب تمہارا ہے اور اتنا ہی اس کے ساتھ مزید بھی ہے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ: “کیا ہم روز قیامت اللہ تعالی کو دیکھیں گے؟۔” آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ہاں۔ تم اپنے رب کو بالکل ایسے ہی دیکھو گے جیسے عین دوپہر کے وقت سورج کو اور چودھویں کی رات مکمل چاند کو بغیر کسی بھیڑ اور دھکم پیل کے دیکھ لیتے ہو۔ تشبیہ وضاحت اور اس میں کسی قسم کے شک، مشقت اوراختلاف نہ ہونے ميں ہے۔ یہ دیکھنے کی تشبیہ دیکھنے کے ساتھ ہے، دیکھی جانے والی شے کی تشبیہ دیکھی جانے والی شے کے ساتھ نھیں ہے۔ یہ رویت اس رویت کے علاوہ ہے جو اللہ کے اولیاء کو جنت میں بطور ثواب اور اعزاز کے عطا ہوگی۔ کیونکہ یہ رویت ان لوگوں کے درميان فرق کرنے کے لیے ہے جنہوں نے اللہ کی عبادت کی اور جنہوں نے اس کے علاوہ کی عبادت کی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک اعلان کرنے والا پکار کر کہے گا کہ جو اللہ کے سوا کسی اور شے کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پیچھے ہو لے۔ ایک صحیح روایت میں ہے کہ: خود اللہ تعالی ہی یہ ندا دے گا۔ چنانچہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے تھے انہیں اکٹھا کر کےجہنم میں پھینک دیا جائے گا اور صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، چاہے وہ فرمانبردار ہوں یا نافرمان، اور یہود و نصاری میں سے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے۔ البتہ ان میں سے زیادہ تر کو تو ان کے معبودوں کے ساتھ جہنم کے پاس لے جایا جائے گا۔ پھر اس جگہ جہنم کو لا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے گا اور وہ یوں لگے گی جیسے سراب ہوتا ہے۔ پھر یہودیوں کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے تھے۔ ان کو جواب ملے گا کہ تم جھوٹ کہتے ہو کہ عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی اولاد۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو؟وہ کہیں گے کہ ہم پینا چاہتے ہیں۔ ان کا سب سے پہلا مطالبہ پانی کا ہوگا۔ کیونکہ اس جگہ پے در پے آنی والی پریشانیوں اور کٹھن مراحل اور ہولناکیوں کی وجہ سے سخت پیاس لگے گی۔ جہنم ان کو ایسے دکھائی دے گی جیسے پانی ہو۔ ان سے کہا جائے گا: جو تمہیں دکھائی دے رہا ہے اور جسے تم پانی سمجھ رہے ہو اس کی طرف جاؤ اور پی لو۔ وہ وہاں جائیں گے تو جہنم کو پائیں گے جو اپنی حرارت کی شدت اور شعلہ زنی کی وجہ سے خود اپنے آپ ہی کو کھائے جا رہی ہو گی۔ پس وہ لوگ اس میں گر جائیں گے۔ ان کے بعد اسی طرح نصاری کو بھی کہا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب صرف اللہ کی عبادت کرنے والے مطیع اور گناہ گار باقی رہ جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم کو کس چيز نے اس جگہ روک رکھا ہے، جب کہ لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے: ہم نے دنیا میں اس وقت ان لوگوں سے کنارہ کشی کی جب کہ ہمیں ان کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ کیونکہ ان لوگوں نے اللہ کی نافرمانی اور اس کے احکامات کی مخالفت کی۔ چنانچہ ہم نے اللہ کی خاطر ان سے نفرت كركے ان كی دشمنی مول لی اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کو مقدم رکھا (پھر آج بھلا ہم ان سے الگ کیوں نہ رہیں؟!)۔ اب ہم اپنے اس رب کے انتظار میں ہیں جس کی ہم دنیا میں عبادت کیا کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس صورت کے بجائے کسی اور صورت میں آئے گا جس ميں انہوں نے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔ اس میں اس بات کی صاف وضاحت ہے کہ اس دفعہ آنے سے پہلے ہی وہ اللہ کو ایسی صورت میں دیکھ چکے تھے جس میں انہوں نے اسے پہچان لیا تھا۔ صورت کی تاویل کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ بغیر کسی تکییف و تمثیل اور بنا کسی تحریف و تعطیل کے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ جب اللہ تعالی ان کے پاس آئے گا تو کہے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ اس پر خوش اور مسرور ہوتے ہوئے کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔ اس وقت اللہ تعالی سے صرف انبیاء ہی کلام کر سکیں گے۔ اللہ تعالی ان سے فرمائے گا: کیا تمہارے اور تمہارے رب کے مابین کوئی ایسی علامت ہے جس سے تم اسے پہچان سکو؟ وہ کہیں گے کہ یہ علامت پنڈلی ہے۔ اس پر اللہ تعالی اپنے پنڈلی کھول دے گا اور اس سے مومنين اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پہچان کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ جب کہ منافقین جو لوگوں کو دکھانے کے لیے عبادت کیا کرتے تھے، انہیں سجدہ کرنے سے روک دیا جائے گا اور ان کی پیٹھ کو ایک طشت بنادیا جائے گا، (جس کی وجہ سے) وہ نہ جھک سکیں گے اور نہ ہی سجدہ کر سکیں گے۔ کیونکہ دنیا میں وہ لوگ درحقیقت اللہ تعالی کے لیے سجدے نہیں کرتے تھے بلکہ محض اپنے دنیاوی مقاصد کے لیے سجدے کیا کرتے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "ساق" (پنڈلی) اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ یہ حدیث اور اس طرح کی دیگر احادیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر ہیں کہ: ﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلا يَسْتَطِيعُونَ﴾ ”جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور انہیں سجدہ کرنے کو کہا جائے گا تو وہ نہ کر سکیں گے“۔ اس مقام پر "ساق" کی تفسیر سختی اور پریشانی کے ساتھ کرنا مرجوح ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کی بنا پر"ساق" کی صفت کو اللہ کے لیے ثابت کرنا واجب ہے۔ صفت پر ہی آيت کی دلالت راجح اور صحيح ترین ہے،اوراسے بغیر تکییف و تمثیل اور بغير کسی تحریف و تعطیل کے ماننا ہے۔ پھر ان کو پل صراط پر لایا جائے گا جسے جہنم کے درمیان میں رکھ دیا جائے گا۔ اس پل پر پاؤں ٹھہر نہیں پائیں گے اور نہ جم سکیں گے۔ اس پر آنکڑے لگے ہوں گے یعنی خم دار اور تیز لوہے کے کانٹے تاکہ جنہیں اچک لینا ہو انہیں ان کے ذریعہ اچک لیا جاسکے۔ یہ خمیدہ کھونٹیوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ پل پر موٹے اور چوڑے چپٹے کانٹے بھی ہوں گے۔ لوگ اس پل پر سے اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے گزریں گے۔ جس کا ایمان کامل ہوگا اور عمل صالح خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو گا وہ جہنم کے اوپر سے پلک جھپکنے میں گزر جائے گا۔ جو اس سے کمتر ہوگا اس کا گزرنا اس کے ایمان اور عمل کے لحاظ سے ہوگا جیسا کہ اس کی تفصیل حدیث میں بیان کی گئی ہے اور ان کے گزرنے کی کیفیات کو بجلی اور ہوا وغیرہ کےساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ پل پر سے گزرنے والے چار قسم کے لوگ ہوں گے: اول: بغیر کسی تکلیف کے نجات پا جانے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گزرنے کی رفتار ایک دوسرے سے مختلف ہو گی جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ دوم: زخمی ہو کر نجات پانے والے۔ “الخدش” ہلکے زخم کو کہتے ہیں۔ یعنی جہنم کی تپش انہیں پہنچے گی یا پھر وہ پل پر نصب کھونٹیوں اور آنکڑوں کی زد میں آ جائیں گے۔ سوم: جہنم میں پٹخ دیے جانے والے جو زور سے اس میں جا گریں گے۔ چہارم: جو گھسٹ گھسٹ کر پل پر سے گزریں گے اور ان کے اعمال (اتنے کمزور ہوں گے کہ)ان کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوں گے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ آج کسی حق کے لیے جس طرح مجھ سے مطالبہ اور درخواست کرتے ہو اس دن مومنین اللہ سے اس سے بھی زیادہ شد و مد کے ساتھ مطالبہ اور درخواست کریں گے۔” یہ اللہ کا خصوصی کرم اور رحمت ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو اجازت دے گا کہ وہ اپنے ان بھائیوں کی بابت اللہ تعالیٰ سے فرمائش کریں اور انہیں معاف کرنے کی درخواست کریں، جنہیں ان کے ان جرائم کے سبب جہنم میں ڈال دیا گیا ہوگا جن کا ارتکاب وہ اپنے رب کی مخالفت میں کرتے رہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں جو دوزخ کے عذاب اور پل صراط کی ہولناکی سے نجات پاگئے ہوں گے یہ بات ڈال دے گا کہ وہ ان کے حق میں اس سے درخواست کریں اور ان کے لیے شفاعت کریں۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت کی بدولت انہیں اس کی اجازت دے گا۔ ’’اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات عطا فرما)۔” اس کا مفہوم مخالف یہ نکلتا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے اور ان کے ساتھ روزے نہیں رکھتے وہ ان کے حق میں شفاعت نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے لیے اپنے رب کے حضور درخواست گزاریں گے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ جن کے حق میں مومن لوگ اپنے رب سے درخواست کریں گے وہ بھی مومن اور موحد ہوں گے۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے: “ہمارے بھائی بھی جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے۔” تاہم انہوں نے بعض گناہوں کا ارتکاب کیا جن کی وجہ سے وہ جہنم کے مستحق ٹھہرے۔ اس میں خوارج اور معتزلہ کے دو گمراہ گروہوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ جو جہنم میں چلا جائے گا وہ اس میں سے نہیں نکلے گا اور یہ کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ضرور دوزخ میں جائے گا۔ اللہ تعالی ان سے فرمائے گا: جاؤ اور جو شخص بھی تمہیں ایسا ملے جس کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لاؤ۔ اللہ تعالی ان کے چہروں کو آگ پر حرام کر دے گا تا کہ وہ ان کے چہروں کو نہ جلائے۔ چنانچہ وہ آئیں گے تو دیکھیں گے کہ ان میں سے بعض کے پاؤں تک اور بعض کی پنڈلیوں کے نصف تک آگ پہنچ رہی ہے۔ وہ ان میں سے جن کو پہچان پائیں گے انہیں نکال لیں گے۔ پھر جب واپس آئیں گے تو اللہ تعالی ان سے فرمائے گا: جاؤ اور جس کے دل میں تم نصف دینار کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے بھی جہنم سے نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچان سکيں گے انہیں نکال لیں گے۔ پھر جب لوٹ کر آئیں گے تو اللہ تعالی ان سے فرمائے گا: جاؤ اور جس کے دل میں تمہیں ذرہ برابر بھی ایمان ملے اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جسے وہ پہچان پائیں گے نکال لائیں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم میری بات کی تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھ لو: [إنَّ اللهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وإنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا]۔ (ترجمہ: اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر ایک نیکی ہو تو اس کا ثواب کئی گناہ بڑھا کر دیتا ہے۔) ابو سعید رضی اللہ عنہ کا اس آیت کو استشہاد کے طور پر پیش کرنے کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ بندے کے پاس ذرہ برابر بھی اگر ایمان ہو تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے اور اسے اس کی وجہ سے نجات دے دیتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بعد انبیاء، فرشتے اور مومنین شفاعت کریں گے۔‘‘ اس میں اس بات کا صراحت کے ساتھ بیان ہے کہ یہ تینوں شفاعت کریں گے۔ تاہم یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ کسی بھی سفارشی کی شفاعت اللہ کی اجازت کے بعد ہی ہوگی جیسا کہ پہلے گزر چکا کہ مومنین نے اس وقت اپنے رب سے درخواست کی اور اس سے سوال کیا، تب انہیں اس کی اجازت دی گئی۔ پھر اللہ نے ان کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’جاؤ اور جوتمہیں ملے اسے نکال لاؤ۔الخ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اللہ تعالی کا ارشاد ہو گا کہ اب میری شفاعت باقی رہ گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو نکال کر باہر لے آئے گا جو جھلس کرکوئلہ ہو چکے ہوں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی شفاعت سے مراد اس کا ان عذاب میں مبتلا لوگوں پر رحم کرنا ہے۔ چنانچہ اللہ انہیں جہنم سے نکال لے گا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: “اللہ ایک مٹھی بھرے گا۔” اس میں اللہ تعالی کے لیے صفتِ قبض (مٹھی بھرنا) کا بیان ہے۔ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی احادیث میں کتنے ہی ایسے نصوص ہیں جن سے ہاتھ اور مٹھی کا اثبات ہوتا ہے۔ لیکن تاویل و تحریف کرنے والے بدعقیدہ لوگ اسے قبول کرنے اور اس پر ایمان لانے سے انکاری ہیں۔ عنقریب وہ جان لیں گے کہ حق وہی تھا جو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا تھا اور وہی تھے جو راہ راست سے بھٹک گئے تھے۔ بہرحال اللہ تعالی جہنم میں سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو باہر نکالے گا جو جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: ’’انہیں جنت کے کناروں پر موجود ایک نہر میں ڈال دیا جائے گا جس کا نام آب حیات ہے۔ وہ اس کے کناروں پر اس طرح تر و تازہ ہو جائیں گے۔‘‘ یعنی جنت کے ارد گرد موجود ایک نہر میں ڈال دیا جائے گا جسے آب حیات کہا جاتا ہے۔ ایسا پانی جو اپنے اندر غوطہ لگانے والے کو جلا بخش دیتا ہے۔ اس نہر کے کناروں پر ان کا جل جانے والا گوشت، آنکھیں اور ہڈیاں دوبارہ سے نکل آئیں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس طرح سیلاب کے پس ماندہ کوڑے کرکٹ سے سبزہ ابھر آتا ہے۔ تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا کہ اس کے جس حصے پر دھوپ پڑتی رہتی ہے اس پر سبزا اگ آتا ہے اور جس حصے پر سایہ ہوتا ہے وہ روکھا رہ جاتا ہے۔” آپ ﷺ کا اس تشبیہ سے مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ ان کا گوشت بہت تیزی سے نکل آئے گا۔ کیونکہ جیسا کہ ذکر ہوا، سیلاب کے لائے ہوئے کوڑے کرکٹ پر روئیدگی بہت تیزی سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے جو حصہ سائے میں ہوتا ہے وہ روکھا رہ جاتا ہے اور جو دھوپ میں ہوتا ہے وہ سرسبز ہوتا ہے۔ ایسا ان کی پتیوں کے نازک ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقعتاً وہ بھی ایسے ہی نکلیں گے کہ جو لوگ جنت کی طرف ہوں گے وہ روکھے رہ جائیں گے اور جو جہنم کی طرف ہوں گے وہ سرسبز ہوں گے۔ بعض لوگوں سے یہ قول منقول ہے، تاہم ایسا نہیں ہے، بلکہ یہاں ان کو اس سبزے کے ساتھ تشبیہ اس کے تیزی سے نکلنے اور نزاکت میں دی گئی ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ ایسے نکلیں گے جیسے موتی ہوں۔‘‘ یعنی اپنی ظاہری جلد کی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے وہ موتیوں کی مانند نظر آئیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “پھر ان کی گردنوں پر مہریں لگا دی جائیں گی۔” ان مہروں پر لکھا ہوگا: ’’رحمن کی طرف سے جہنم سے آزاد کر دہ۔‘‘ جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’پھر وہ جنت میں چلے جائیں گے۔ اہل جنت انہیں دیکھ کر کہیں گے: یہ رحمن کے آزاد کردہ لوگ ہیں۔انہوں نے کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی بھلائی کو آگے بھیجا تھا لیکن پھر بھی اللہ نے ان کو جنت میں داخل کر دیا۔” یعنی دنیا میں انہوں نے کوئی نیک کام نہیں کیا لیکن جوہرِ ایمان ان کے پاس تھا جو کہ صرف اور صرف اللہ کے معبود برحق ہونے کی گواہی اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان سے کہا جائے گا: ’’تم جو کچھ دیکھ رہے ہو وہ سب تمہارا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی ہے۔‘‘ یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ جنت کے كچھ خالی مقامات پر آئیں گے اسی لیے ان سے ایسا کہا جائے گا۔