عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بَلَغَهُ أن بني عمرو بن عوف كان بينهم شَرٌّ، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلح بينهم في أناس معه، فحُبِس رسول الله صلى الله عليه وسلم وحَانتِ الصلاة، فجاء بلال إلى أبي بكر رضي الله عنهما ، فقال: يا أبا بكر، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حُبِس وحَانت الصلاة فهل لك أن تَؤُمَّ الناس؟ قال: نعم، إن شِئت، فأقام بلال الصلاة، وتقدم أبو بكر فكبَّر وكبَّر الناس، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف حتى قام في الصفِّ، فأخذ الناس في التَّصْفيقِ، وكان أبو بكر رضي الله عنه لا يَلْتَفِتُ في الصلاة، فلما أكثر الناس في التَّصْفيقِ الْتَفَتَ، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفع أبو بكر رضي الله عنه يَدَهُ فحمد الله، ورجع القَهْقَرَى وراءه حتى قام في الصف، فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى للناس، فلما فرغ أقبل على الناس، فقال: «أيها الناس، ما لكم حين نَابكم شيء في الصلاة أخذتم في التصفيق؟! إنما التصفيق للنساء. من نَابه شيء في صلاته فليَقُل: سبحان الله، فإنه لا يسمعه أحد حين يقول: سبحان الله، إلا التَفَتَ، يا أبا بكر: ما مَنَعَك أن تصلي بالناس حين أشَرْتُ إليك؟»، فقال أبو بكر: ما كان ينبغي لابن أبي قُحافة أن يصلي بالناس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم .
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کو خبر ملی کہ عمرو بن عوف کی اولاد کےدرمیان کچھ جھگڑا ہے۔ چنانچہ رسول ﷺ چند لوگوںکے ساتھ ان کے درمیان مصالحت کرانے کی غرض سے تشریف لے گئے، رسول کریم ﷺ وہاں کچھ رکنا پڑا اور نماز کا وقت ہوگیا۔ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے ابوبکر! رسول اللہ ﷺ وہاں رک گئے ہيں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے، تو کيا آپ لوگوں کی امامت کرائیں گے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں اگر تم چاہتے ہو۔ بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے ليے اقامت کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور تکبير تحریمہ کہہ کر نیت باندھی اور لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ اتنے میں رسول کریم ﷺ صفوں کے درميان چلتے ہوئےتشریف لے آئے يہاں تک کہ (اگلی)صف ميں کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ بحالت نماز کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ جب لوگوں کی تالیاں زیادہ ہوگئیں تو متوجہ ہوئے اور دیکھا کہ رسول کریم ﷺ کھڑے ہیں۔ رسول ﷺ نے ان کی جانب اشارہ فرمایا (کہ نماز پڑھاتے رہيں)، ليکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھايا، اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور الٹے پاؤں پیچھے چلے آئے یہاں تک کہ صف میں کھڑے ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: لوگو! تمھیں کیا ہے کہ جب تمہيں نماز میں کوئی نئی چیز پيش آتی ہے تو تم تالیاں بجانا شروع کرديتے ہو؟ تالیاں بجانا تو خواتین کے ليے (مشروع) ہے، جب نماز میں کسی کو کوئی نئی چیز پيش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے اس لیے کہ جو بھی اسے سبحان اللہ کہتے ہوئے سنے گا تو اس کی طرف متوجہ ہوگا۔ (پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:) ’’اے ابو بکر! تمھیں جب میں نے اشارہ کر دیا تھا (کہ نماز پڑھاتے رہو) تو پھر تمھیں لوگوں کو نماز پڑھانے سے کس چیز نے روکا؟‘‘ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابو قحافہ کے بيٹے (ابو بکر) کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی موجودگی میں لوگوں کو نماز پڑھائے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
رسول کریم ﷺ کو خبر ملی کہ عمرو بن عوف کی اولاد کےدرمیان کچھ اختلاف ہے۔ اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی ہے۔ آپ ﷺ بعض صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے، تو وہاں تاخير ہوگئي اور نماز کا وقت ہوگيا۔ وہ عصر کی نماز تھی جيسا کہ بخاری نے اپنی روايت ميں اس کی صراحت کی ہے۔ صحيح بخاری کی روايت کے الفاظ يہ ہيں: ”جب نماز عصر کا وقت ہوا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے (نماز پڑھانے کے ليے) کہا تو وہ آگے بڑھے“۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے ابوبکر! رسول اللہ ﷺ وہاں رک گئے ہيں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے، تو کیا آپ لوگوں کی امامت کرائیں گے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں اگر تم چاہتے ہو۔ بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے ليے اقامت کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور تکبير تحریمہ کہہ کر نیت باندھی اور لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ اتنے میں رسول کریم ﷺ صفوں کے درميان چلتے ہوئے تشریف لے آئے۔ بخاري نے ایک روايت ميں یہ اضافہ کیا ہے: ”صفوں کو چيرتے ہوئے تشريف لائے“، يہاں تک کہ پہلی صف ميں کھڑے ہوگئے جيسا کہ صحيح مسلم کی روايت ميں ہے کہ صفوں کو چيرتے ہوئے آئے يہاں تک کہ اگلی صف ميں کھڑے ہوگئے، جب لوگوں کو نبی کريم ﷺ کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ تالياں بجانے لگے کیونکہ وہ نبی کريم ﷺ کے پيچھے نماز پڑھنا پسند کرتے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کی تالياں سن رہے تھے ليکن اس کی وجہ کیا تھی؟ اس سے بے خبر تھے۔ اور وہ ادھر اُدھر متوجہ نہيں ہوتے تھے، کیونکہ انہيں علم تھا کہ نماز میں ادھر ادھر متوجہ ہونا ممنوع ہے اور يہ شيطان کا بندے کی نماز ميں سے اچک لينا ہے جيسا کہ ترمذي وغيرہ ميں اس کا ذکر ہے، ليکن جب لوگوں نے بہت زیادہ تالیاں بجائیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور ديکھا کہ رسول کریم ﷺ تشریف لا چکے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے ان کی جانب اشارہ کیا کہ لوگوں کی امامت کراتے رہيں،جيسا کہ صحيح بخاری کی روايت ميں ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر برقرار رہيں، ليکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھايا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ جو حسن معاملہ فرمايا تھا، اس پراللہ تعالیٰ کی حمد بيان کی، پھر وہ الٹے پاؤں چند قدم پیچھے آگئے یہاں تک کہ مقتديوں کی صف میں شامل ہوگئے، اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب اپنا رخ کیا اور ارشاد فرمایا: اےلوگو! تمھیں کیا ہے کہ جب تمہيں نماز میں کوئی نئی چیز پيش آتی ہے تو تم تالیاں بجانا شروع کرديتے ہو؟ تالیاں بجانا تو خواتین کے ليے (مشروع) ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے لیے وضاحت فرمائی کہ اگر نماز میں انھیں کوئی چیز پیش آجائے تو ان کے لیے کیا کرنا مسنون ہے، چنانچہ فرمايا: ”جب نماز میں کسی کو کوئی نئی چیز پيش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے اس لیے کہ جو بھی اسے سبحان اللہ کہتے ہوئے سنے گا تو اس کی طرف متوجہ ہوگا“۔ پھر فرمایا: ”اے ابو بکر! تمھیں جب میں نے اشارہ کر دیا تھا (کہ نماز پڑھاتے رہو) تو پھر تمھیں لوگوں کو نماز پڑھانے سے کس چیز نے روکا؟“ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابو قحافہ کے بيٹے (ابو بکر) کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی موجودگی میں لوگوں کو نماز پڑھائے۔ يہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اللہ کے رسول ﷺ سے محبت اور آپ کی تعظيم وتوقير اظہار تھا۔