عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما قال: رُفع إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ابن ابنته وهو في الموت، ففاضت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له سعد: ما هذا يا رسول الله؟! قال: «هذه رحمة جعلها الله تعالى في قلوب عباده، وإنما يرحم الله من عباده الرحماء».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ان کے نواسے کو اس وقت لایا گیا، جب وہ موت کے کشمکش میں تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اللہ!یہ رونا کیسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے (نیک) بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے، جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں“۔
صحیح - متفق علیہ

شرح

اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما جو ”حُبُّ رسولِ اللہ (ﷺ)"c2">“ کے لقب معروف تھے، بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی ایک صاحب زادی نے آپ کے پاس قاصد بھیج کر کہلوایا کہ ان کا بیٹا قریب المرگ ہے۔ اور ان کی خواہش ہے کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائیں۔ قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس سے کہا:ان سے کہو کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔ جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے"c2">“۔ یعنی نبی ﷺ نے اس شخص کو جسے آپ ﷺ کی بیٹی نے بھیجا تھا، حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کی بیٹی، جو اس بچے کی ماں تھیں، ان سے یہ الفاظ کہے۔ آپ ﷺ کا فرمان: ” جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی"c2">“ بہت ہی معنی خیز جملہ ہے۔ جب ہر شے اللہ کی ہے، بایں طور کہ اگر آپ سے اللہ کوئی شے لے لے، تو وہ بھی اس کی ملکیت ہے اور اگر کوئی شے دے، تو وہ بھی اسی کی ملکیت ہے، تو پھر اگر اپنی مملوکہ شے کو وہ لے لے، تو اس پر ناراضگی کا اظہار کیا معنی رکھتا ہے؟ اس لیے انسان کے لیے یہ سنت ہے کہ جب کوئی مصیبت لاحق ہو تو یہ دعا پڑھے:”إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ"c2">“ ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یعنی ہم سب اللہ کی ملکیت ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ ہم سے ہماری کوئی پسندیدہ شے لے لے تو (جان رکھنا چاہیے کہ) جس شے کو وہ لیتا ہے یا جس شے کو وہ دیتا ہے، سب اسی کا ہے۔ حتی کہ جو شے اللہ تعالی آپ کو دیتا ہے آپ اس کے مالک نہیں ہوتے بلکہ وہ اللہ ہی کی ہوتی ہے۔ اسی لیے جو اشیا اللہ آپ کو دیتا ہے وہ آپ کی ملکیت نہیں بلکہ وہ اللہ کی ہیں۔ اس لیے ان میں آپ اسی طرح سے تصرف کر سکتے ہیں جس طرح سے اللہ اجازت دے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی عطا کردہ اشیا پر ہماری ملکیت ناقص ملکیت ہےاور ان میں ہم تصرف مطلق نہیں کر سکتے۔ آپ ﷺ کا فرمان: ”بأجل مسمى" یعنی معین مدت ہے۔ جب آپ کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ جو کچھ لیتا یا جو کچھ دیتا ہے، سب اسی کا ہے اور یہ کہ اس کے یہاں ہر شے کا ایک وقت مقرر ہے، تو آپ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اس آخری جملے کا معنی یہ ہے کہ جس شے کا واقع ہونا معینہ وقت پر لکھ دیا گیا ہو، اس میں انسان تبدیلی نہیں کر سکتا، بایں طور کہ نہ تو اسے آگے کر سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ ”ہر امت کے لیے ایک معین وقت ہے، جب ان کا وه معین وقت آپہنچتا ہے، تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں"c2">“۔ (یونس: 49) اگر ہر شے متعین ہے اور آگے پیچھے نہیں ہو سکتی تو پھر بے صبری کرنے اور نالاں ہونےمیں کوئی فائدہ نہیں۔ کیوںکہ بے صبری کر کے اور نالاں ہو کر آپ جو شے مقدر ہو، اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے۔ اس پیغام لانے والے نے نبی ﷺ کی صاحبزادی تک وہ بات پہنچا دی جسے پہنچانے کا آپ ﷺ نے حکم دیا تھا۔ لیکن انہوں نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپ ﷺ تشریف لائیں۔ اس پر آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ ﷺ جب ان کے پاس پہنچے تو بچے کو آپ ﷺ کے پاس لایا گیا،اس حال میں کہ اس کی سانس اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ رو دیے اور آپ ﷺ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ رسول اللہ ﷺ صبر نہ کر سکنے کی وجہ سے رو پڑے ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو رحمت ہے"c2">“ یعنی میں تقدیر پر بے صبرا ہو کر نہیں، بلکہ بچے پر رحم کی وجہ سے رویا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتے ہیں اور جو رحم دل ہوتے ہیں۔ اس میں دلیل ہے کہ رحم دلانہ جذبات کے ساتھ کسی مصیبت زدہ پر از راہ رحمت رونا جائز ہے“۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی کردی تمل
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔