عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «النَّاسُ مَعَادِن كَمَعَادِن الذَّهَب وَالفِضَّة، خِيَارُهُم فِي الجَاهِلِيَّة خِيَارُهُم فِي الإِسْلاَم إِذَا فَقُهُوا، والأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَة، فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ».
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم:
«تَجِدُون النَّاسَ مَعَادِن: خِيَارُهُم فِي الجَاهِليَّة خِيَارُهُم فِي الإِسْلاَم إِذَا فَقِهُوا، وَتَجِدُون خِيَار النَّاس فِي هَذَا الشَّأْن أَشَدُّهُم كَرَاهِيَة لَه، وَتَجِدُون شَرَّ النَّاس ذَا الوَجْهَين، الَّذِي يَأْتِي هَؤُلاَء بِوَجه، وَهَؤُلاَء بِوَجْه».
[صحيحان] - [الحديث الأول: متفق عليه، ولفظه لمسلم؛ وروى البخاري أوله، وروى آخره عن عائشة -رضي الله عنها-.
الحديث الثاني: متفق عليه]
المزيــد ...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”انسان کانوں کی طرح ہیں جیسے سونا اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں۔ روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی، ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ ایک دوسرے ناآشنا رہتی ہیں“۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم انسانوں کو کان کی طرح پاؤ گے، جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں۔ اور تم حکومت اور سرداری کے لائق اس کو پاؤ گے جو حکومت اور سرداری کو بہت ناپسند کرتا ہو، اور آدمیوں میں سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دورخہ (دوغلا) ہو، جو کچھ لوگوں کے سامنے ایک رخ سے آتا ہے اور دوسروں کے سامنے دوسرے رخ سے جاتا ہے“۔
[یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔] - [اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
رسول اللہ ﷺ کا لوگوں کو معادن (کانوں) سے تشبیہ دینے میں کئی دلالتوں کی طرف اشارہ موجود ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں کہ لوگوں کی طبیعتیں اور ان کی اخلاقی اور نفسیاتی خوبیاں مختلف قسم کی ہوتی ہیں اور اس بات کو کانوں (معادن) کے فرق سے سمجھا جاسکتا ہے نیز یہاں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اصلاح و درستگی کو قبول کرنے میں لوگوں کے مابین فرق پایا جاتا ہے، چنانچہ بعض لوگ آسانی سے اصلاحی باتوں کو قبول کرلیتے ہیں جب کہ بعض کے تئیں صبر و تحمل کی ضرورت پیش آتی ہے اور بعض میں تو اصلاح کو قبول کرنے کا مادہ ہی نہیں ہوتا اور یہی حال کانوں کا ہوتا ہے، کانوں سے تشبیہ دینے میں اس پہلو پر بھی توجہ دلائی جارہی ہے کہ لوگ، اپنے نسب کے اشرف و افضل ہونے اور اس کے گھٹیا ہونے کے اعتبار سے بھی مختلف ہوتے ہیں اور یہ بات معادن کی نفاست و عمدگی کے فرق سے سمجھی جاسکتی ہے، چنانچہ بعض سونا اور چاندی جیسے قیمتی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور بعض لوہا اور قلعی شدہ ٹین جیسے معمولی قیمت رکھتے ہیں۔ معادن سے تشبیہ دینے میں اس پہلو پرتوجہ مبذول کی جارہی ہے کہ معادن کی طرح لوگوں میں کسی امر کو اپنانے کی قوت بھی جداگانہ ہوتی ہے، پس عرب کے معادن سے مُراد ان کی اصل اور ان کےحسب و نسب ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان: ”جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں“ یعنی زمانۂ جاہلیت میں حسب و نسب، خاندان اور اصل کے نقطہ نظر سے سب سے زیادہ قابلِ عزت لوگ ہی بہتر اور اچھی صفات کے مالک ہیں بشرطیکہ وہ دین میں بھی خوب سمجھ بوجھ حاصل کریں، جیسے خاندانِ بنی ہاشم ، نسب اور اصل کے اعتبار سے زمانہ جاہلیت میں قریش کا سب سے زیادہ بہترین قبیلہ رہا جیسا کہ صحیح حدیث کی نص اس بات پر دلالت کرتی ہے، اسی طرح وہ اسلام میں بھی بدستور سب سے بہترین رہیں گے بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کا تفقہ حاصل کریں اور اس دین کا علم حاصل کریں، اگر اُن میں دین کی سمجھ نہ ہو تو بہترین عربی النسل ہونے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی مکرم مخلوق کا درجہ نہیں پاسکتے اور نہ ہی بہترین مخلوق ہوسکتے ہیں۔ اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان، اپنے نسب کی بنیاد پر اشرف و افضل اسی شرط پر ہوتا ہے کہ اس کو دین کی سوجھ بوچھ حاصل ہو، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نسب کی بڑی تاثیر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نسب کے اعتبار سے بنوہاشم لوگوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ اور شرف والی قوم تھی اور انھیں میں سے ساری مخلوق میں اشرف و افضل ذات گرامی، رسول اللہ ﷺ ﴿اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾ ”اس موقع کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وه اپنی پیغمبری رکھے؟“ کی پیدائش ہوئی، اگر آدم علیہ السلام کی اولاد میں یہ قبیلہ سب سے زیادہ شرف کا حامل نہ ہوتا تو اس سے نبی ﷺ نہیں آتے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ کی بعثت، انتہائی شریف قبیلے اور اعلی ترین نسب ہی میں ہوئی۔ حدیث کے اس خلاصہ میں دونوں حدیثیں برابر کی شریک ہیں۔ پہلی حدیث کا اختتام آپ ﷺ کے فرمان: ”اور روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی، ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں، یہاں بھی وہ ایک دوسرے سے ناآشنا رہتی ہیں“ پر ہوتا ہے، اور احتمال ہے کہ اس میں یہ اشارہ ہوکہ لوگوں میں خیر و شر والی مختلف اشکال ہوتی ہيں ۔ لہذا بہترین قسم کے لوگ، اپنے جیسے بھلے لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور شریر و اوباش قسم کے لوگ، اپنی ہی طرح کے شریر لوگوں کی طرف میلان رکھتے ہیں تو روحوں کی باہمی پہچان، خیر یا شر کے مطابق پیدا کردہ جبلی و فطری تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے اور جب ان فطری تقاضوں میں اتفاق قائم ہو تو وہ ایک دوسرے سے متعارف ہوجاتے ہیں اور اگر ان کے فطری تقاضے مختلف ہوئے تو وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔ اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ عالم غیب میں ہوئے ابتدائے آفرینش کے تئیں خبر ہو، کہ روحوں کو جسموں سے قبل پیدا کردیا گیا اور وہ ایک دوسرے سے ملتی جلتی رہیں اور جب انھیں اجسام میں ڈالا گیا تو اس پہلے تعارف کی بناء پر ان کے مابین تعارف ہوا اور عالم غیب کے اس گزرے ہوئے زمانہ کے مطابق، ان کے مابین ایک دوسرے کی پہچان اور علیحدگی قائم ہوئی اور اس طرح اچھے لوگ، اچھے افراد کی جانب اور برے، بروں کی جانب مائل ہوئے۔ ابن عبدالسلام کہتے ہیں کہ باہمی پہچان اور اختلاف سے مراد، لوگ اپنی صفات میں ایک دوسرے کی قربت یا تفاوت ہے کیونکہ اگر کسی شخص کی صفات، تم سے میل نہ کھاتی ہوں تو تم اس شخص سے نفرت کا معاملہ کروگے اور کسی انجان شخص سے عدمِ شناسائی کی بنا پر نفرت و ناپسندیدگی کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے اور اس کا تعلق تشبیہِ مجازی سے ہے کہ جس میں ناپسندیدہ شخص کو ناشناسا شخص سے اور مانوس شخص کو ایک معروف و شناسا شخص سے تشبیہ دی گئی۔ دوسری حدیث کا اختتام، رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان پر ہوتا ہے کہ ”اور حکومت اور سرداری کے لائق اس کو پاؤ گے جو حکومت اور سرداری کو بہت ناپسند کرتا ہو، اور آدمیوں میں سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دورخہ (دوغلا) ہو؛ جو کچھ لوگوں کے سامنے ایک رخ سے آتا ہو اور دوسروں کے سامنے دوسرے رخ سے جاتا ہو“، چنانچہ آپ ﷺ کے قول: (اس معاملے میں تم لوگوں میں سب سے بہتر پاؤگے ) یعنی خلافت اور سرداری میں مطلب احکام کی باہمی تعمیل میں سرگرداں رہنے والے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو سرداری کے لالچی و حریص نہیں ہوتے اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اگر اختیار و اقتدار آجائے تو انہیں راست روی کی رہنمائی اور اصلاحِ قوم کی توفیق میسر ہوتی ہے، جب کہ امارت و سرداری کی حرص و طمع رکھنے والے کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بُرے لوگ دو رخے و دوغلے ہوتے ہیں، جیسا کہ منافقین کا ایسا ہی طرز عمل ہوتا ہے، قرآن کہتا ہے ہے: ﴿وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ﴾ ”اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے صرف مذاق کرتے ہیں“۔ اور بیشتر افراد میں اس قسم کی بری عادات پائی جاتی ہیں، ایسےکردار سےاللہ تعالیٰ کی پناہ! کیوں کہ اس کا نفاق کے ایک شعبہ سے تعلق ہے۔ آپ ایسے شخص کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کے پاس آکر چاپلوسی کرتا ہے اور آپ کی تعریفیں کرتا ہے اور بسااوقات اس تعریف میں مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتا ہے، لیکن جب آپ کے پیٹھ پیچھے ہوتا ہے تو آپ کی کردار کشی کرتا ہے، آپ کی مذمت کرتا ہے، آپ کو گالی گلوچ دیتا ہے اورآپ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جو آپ میں نہیں ہوتیں۔ ایسے کردار سے اللہ تعالیٰ کی پناہ! یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے اس کردار کے حامل کو لوگوں میں سب سے بدترانسان قرار دیا۔