عن حذيفة -رضي الله عنه - قال: أُتَي الله تعالى بِعبْد من عِباده آتاه الله مالاً، فقال له: ماذا عَمِلْت في الدنيا؟ -قال: «ولَا يَكْتُمُونَ اللهَ حَدِيثًا»- قال: يا رَبِّ آتَيْتَنِي مَالَك، فكُنت أُبَايعُ الناس، وكان من خُلُقِي الجَوَاز، فكُنت أَتَيَسَّرُ على المُوسِرِ، وأنْظِر المُعْسِر. فقال الله تعالى : «أنا أحَقُّ بِذَا مِنك تَجَاوزُوا عن عَبْدِي» فقال عُقْبَة بن عَامر، وأبو مسعود الأنصاري رضي الله عنهما : هكذا سَمِعْنَاه من فِيِّ رسول الله صلى الله عليه وسلم .
[صحيح] - [متفق عليه، وهذا لفظ مسلم]
المزيــد ...
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبى كريم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندہ، جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تھا، اللہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اللہ تعالی نے اس سے پوچھا: تو نے دنیا میں کیا کیا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تلاوت فرمائی: ﴿وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا﴾ ”اور وہ اللہ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے“۔ اس نے جواب دیاـ: اے میرے رب! تو نے اپنے پاس سے مجھے مال دیا تھا۔ چنانچہ میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا اور (اس میں)۔ میری عادت درگزر کرنے کی تھی۔ میں کشادہ حال پر آسانی کرتا اور تنگ دست کو مہلت دے دیتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اس (درگزر کرنے) کا تجھ سے زیادہ حق دار ہوں۔ (فرشتو!) میرے بندے سے درگزر کرو۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کے منہ سے اسی طرح سنی ہے۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
حذیفہ رضی اللہ عنہ بيان کر رہے ہیں کہ روزِ قیامت اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو لایا جائے گا جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہوگا۔ اللہ تعالی اس سے اس کے مال کے بارے میں پوچھے گا کہ اس نے اس کا کیا کیا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ﴿وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا﴾ یعنی لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کسی بات کو چھپا نہیں سکیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ”جب کہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے“ ”اس شخص نے کہا: اے میرے رب! تو نے اپنے پاس سے مجھے مال دیا تھا۔ چنانچہ میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا“ یعنی میں لوگوں سے خرید وفروخت اور قرض کے لین دین کا معاملہ کیا کرتا تھا۔ وہ شخص جن اخلاق سے متصف تھا ان ميں سے ايک درگزر کرنا تھا۔ پھر اس نے اپنی بات کی وضاحت ان لفظوں میں کی: ”میں کشادہ حال پر آسانی کرتا تھا“ یعنی میں اس پر آسانی کرتا اور وہ جو کچھ دے دیتا میں اسے کچھ کم ہونے کے باوجود بھی قبول کر لیتا۔ ”اور تنگ دست کو مہلت دے دیتا تھا“ یعنی تنگ دست پر صبر کرتا بایں طور کہ اس سے ادائیگی کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ اس کی مدت میں مزید اضافہ کر دیتا تھا۔ اس پر اللہ تعالی فرمائے گا: ”میں اس (درگزر کرنے) کا تجھ سے زیادہ حق دار ہوں“ یعنی چونکہ تو میرے بندوں سے درگزر کرتا رہا اور تو نے میری اخلاقی صفت اپنائی چنانچہ ہم تجھ سےعفو و درگزر کرنے کے زیادہ حق دار ہیں۔ ”میرے بندے سے درگزر کردو“ یعنی اس کے اللہ تعالیٰ کے بندوں سے درگزر کرنے، ان کے ساتھ آسانی کرنے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا اور اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور نیکی کا بدلہ تو نیکی ہی ہوتا ہے۔ ”عقبہ بن عامر اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کے منہ سے اسی طرح سنی ہے“ یعنی جو بات حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی بعینہ وہی بات بنا کسی کمی بیشی کے انہوں نے بھی نبی ﷺ سے سنی ہے۔