عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : «هذا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عليك السَّلام» قالت: قلت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته.
وهكذا وقع في بعض روايات الصحيحين: «وبركاته» وفي بعضها بحذفها، وزيادة الثقة مقبولة.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ نے مجھ سےفرمایا : ”(اے عائشہ!) یہ جبریل ہیں، تمھیں سلام کہہ رہے ہیں“۔ میں نے کہا: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته۔
بخاری ومسلم کی بعض روایات میں اسی طرح ”و بركاته“ کے الفاظ کے ساتھ روایت آئی ہے، جب کہ بعض روایات میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ (اور قاعدہ یہ ہے کہ) ثقہ راوی کی زیادتی قابل قبول ہوتی ہے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
ام المومنين عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیں بتا رہی ہیں کہ نبی ﷺ نے (ایک دفعہ) ان سے فرمایا: ”اے عائشہ! یہ جبریل علیہ السلام ہیں، جو تمھیں سلام کہہ رہے ہیں“۔ ایک اور روایت میں”يُقرِئُكَ السَّلامَ“ کے الفاظ ہیں۔ یعنی تجھے ہدیہ سلام پیش کر رہے اور تمہیں اسلامی سلام کر رہے ہیں۔ ام المومنين عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "وعليه السلام ورحمة الله وبركاته“ (ان پر بھی سلام)۔ پھر یہ سنت ہے کہ جب کسی شخص کی طرف سے کسی اور شخص کو سلام پہنچایا جائے، تو اسے چاہیے کہ یوں جواب دے: ”وعليه السلام ورحمة الله وبركاته“ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث اسی پر دلالت کر رہی ہے۔ اگر اس نے یہ کہا کہ: ”عليك وعليه السلام“ (تم پڑ اور اس پر بھی سلامتی ہو) یا کہا کہ ”عليه وعليك السلام ورحمة الله وبركاته“ (اس پر بھی اور تم پر بھی سلامتی ہو، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں) تو یہ بہت اچھا ہے۔ کیوںکہ جس نے سلام پہنچایا، وہ احسان کرنے والا ہے۔ چنانچہ آپ اسے دعا دے کر اس کا بدلہ دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص آپ کو کہے کہ میرا سلام فلاں شخص کو پہنچادینا، تو آیا اس کا پہچانا واجب ہے یا نہیں؟ اس معاملے میں علماء کچھ تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اسے پہنچانے کی ذمہ داری لی، تو پھر اس کا پہنچانا واجب ہے۔ کیوںکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا﴾ (النساء: 58) ”اللہ تعالیٰ تمھیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ“ اس صورت میں اسے پہنچانے کی آپ نے ذمہ داری اٹھائی ہے (اس لیے اس کا پہچانا ضروری ہے)۔ تاہم اگر اس شخص کے اس طرح کہنے پر کہ ”میرا سلام فلاں کو دینا“، آپ خاموش رہے یا پھر آپ نے اس سے کہا کہ اگر مجھے یاد رہا تو میں پہچا دوں گا یا اسی طرح کی کوئی بات کہہ دی، تو اس سلام کو پہنچانا واجب نہیں ہے، سوائے اس صورت کہ آپ کو یاد آ جائے، اور آپ نے اس سے یہ کہہ رکھا تھا کہ اگر آپ یاد آ گیا، تو آپ اس کو سلام پہنچا دیں گے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ انسان کسی کو اس کا پابند نہ کرے؛ کیوںکہ ہو سکتا ہے کہ یہ اس کے لیے دشواری کا باعث ہو۔ اس کی بجائے اسے یوں کہنا چاہیے کہ: جو میرے بارے پوچھے اسے میرا سلام کہنا۔ ایسا کہنا اچھا ہے۔ تاہم کسی پر اس کی ذمہ داری ڈال دینا بہترنہیں ہے۔ کیوںکہ ہو سکتا ہے کہ وہ شرم کی وجہ سے یہ کہہ دے کہ ٹھیک ہے، میں تمہارا سلام پہنچا دوں گا۔ پھر وہ بھول جائے یا لمبا عرصہ گزر جائے یا اس طرح کا کوئی اور معاملہ ہو جائے (اور یوں وہ سلام نہ پہنچا سکے)۔