عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعًا: «صلاة الرجل في جماعة تَضعُفُ على صلاته في بيته وفِي سُوقِه خمسا وعشرين ضِعفًا، وذلك: أَنَّه إِذَا تَوَضَّأ، فَأَحسَن الوُضُوء، ثمَّ خرج إلى المسجد لاَ يُخرِجُهُ إلاَّ الصلاة؛ لَم يَخْطُ خُطوَةً إِلاَّ رُفِعَت له بِها درجة، وَحُطَّ عَنهُ بها خطيئة، فإذا صلَّى لم تزل الملائكة تُصَلِّي عليه، ما دام في مُصَلاَّه: اللهُمَّ صَلِّ عليه، اللهم اغفِر له، اللهم ارْحَمه، ولا يزال في صلاة ما انتظر الصلاة».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز، گھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے پچیس درجہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد کی راہ لیتا ہے اور سوائے نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھتا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا جاتا ہے۔ وہ جب نماز سے فارغ ہو جاتا ہے، تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ نماز کی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے۔ فرشتے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے، تب تک وہ گویا نماز ہی میں ہوتا ہے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نبی ﷺ نے بتایا کہ آدمی کی جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کا اجر و ثواب اپنےگھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے مراد تنہا پڑھی جانے والی نماز ہے، جیسا کہ اس کے مقابلے میں باجماعت نماز کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے؛ کیوںکہ آدمی گھر یا بازار میں زیادہ تر تنہا ہی نماز پڑھتا ہے۔ ثواب پچیس گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے فرمان: ”وذلك“۔ میں مشار الیہ اگر نماز باجماعت کی تنہا شخص کی نماز پر فضیلت ہے، تو اس کی رو سے یہ فضیلت مسجد کی جماعت کے ساتھ خاص ہو گی۔ آپ ﷺ کے فرمان: ”أنه“۔ میں ضمیر یا تو ضمیر شان ہے یا مراد یہ ہے کہ وہ شخص جب اچھی طرح سے وضو کرتا ہے، یعنی سنن و آداب کو پورا کرتے ہوئے کامل طریقے سے وضو کرتا ہے، پھر نکل کر مسجد کی طرف چل پڑتا ہے اور نماز کے علاوہ اس کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا، تو ہر اٹھائے جانے والے قدم پر اس کا ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔ یعنی ان صغیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی اور غرض سے نکلا ہو یا پھر نماز کے ساتھ ساتھ اس کا کوئی اور بھی ارادہ ہو، تو اس صورت میں اسے یہ ثواب نہیں ملتا۔ جب وہ نماز پڑھ لیتا ہے تو فرشتے اس کے لیے تب تک دعاے رحمت کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے برابر رحم اور مغفرت مانگتے رہتے ہیں، جب تک وہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہتا ہے۔ یہ بھی احتما ل ہے کہ اس سے مراد اس جگہ موجود رہنا ہو، چاہے وہ لیٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو، جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے۔ فرشتے کہتے ہیں:اے اللہ اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ نمازی جب تک نماز کے انتظار میں رہتا ہے، تب تک وہ گویا نماز میں ہی ہوتا ہے۔ یعنی نماز کے انتظار کی مدت نماز ہی میں شمار ہوتی ہے۔