عن أنس رضي الله عنه قال: انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه حتى سبقوا المشركين إلى بدر، وجاء المشركون، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «لا يقدمن أحد منكم إلى شيء حتى أكون أنا دونه»، فدنا المشركون، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «قوموا إلى جنة عرضها السماوات والأرض» قال: يقول عمير بن الحمام الأنصاري رضي الله عنه : يا رسول الله، جنة عرضها السماوات والأرض؟ قال: «نعم» قال: بخ بخ ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «ما يحملك على قولك بخ بخ؟» قال: لا والله يا رسول الله إلا رجاء أن أكون من أهلها، قال: «فإنك من أهلها» فأخرج تمرات من قرنه، فجعل يأكل منهن، ثم قال: لئن أنا حييت حتى آكل تمراتي هذه إنها لحياة طويلة، فرمى بما كان معه من التمر، ثم قاتلهم حتى قتل.
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ چل پڑے، یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے بدر میں جا پہنچے اور پھر مشرک بھی آگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مجھ سے پہلے کسی شے کی طرف پیش قدمی نہ کرے۔ پھر مشرک قریب پپہنچے، تو فرمایا: اٹھو اس جنت میں جانے کے لیے جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ! جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! انھوں نے کہا: واہ! بہت خوب! آپ ﷺ نے فرمایا: واہ واہ کیوں کہہ رہے ہو؟ وہ بولے: کچھ نہیں یا رسول اللہ ! میں نے اس امید پر کہا کہ شاید میں بھی اہل جنت میں سے ہو جاؤں! آپ ﷺ نے فرمایا: تو جنتی ہے۔ یہ سن کر وہ چند کھجوریں اپنے ترکش سے نکال کر کھانے لگے۔ پھر بولے کہ اگر میں اپنی ان کھجوروں کو کھا لینے تک زندہ رہا، تو یہ بڑی لمبی زندگی ہوگی (یعنی جنت ملنے میں دیر ہوجائے گی)۔ پھر انھوں نے، جو کھجوریں ان کے پاس تھیں، پھینکیں اور کافروں سے لڑائی شروع کردی، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
انس رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مدینے سے ابو سفیان کے قافلے کا سامنا کرنے کے لیے نکلے، جو شام سے لوٹ کر مکہ جارہا تھا۔ مسلمانوں کا ارادہ جنگ کا نہیں تھا، لیکن اللہ تعالی نے انھیں اور ان کے دشمنوں کو بنا کسی پیش بندی کے جمع فرما دیا۔ اسی وجہ سے اس معرکے میں بہت سے صحابہ شریک نہ ہو سکے اور ان میں سے کسی پر آپ ﷺ نے عتاب بھی نہیں فرمایا۔ نبیﷺ چل پڑے اور کفار قریش سے پہلے ہی میدان بدر پہنچ کر اپنی جگہ لے لی۔ جب کفار قریش پہنچے تو نبی ﷺ نے فرمایا: مجھ سے پہلے تم میں سے کوئی پیش قدمی نہ کرے۔ مراد یہ کہ نبی ﷺ نے صحابۂ کرام کو کسی بھی شے کی طرف بڑھنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ خود آپ آگے بڑھ کر ان کے مقابلے میں دشمن سے زیادہ قریب ہو جائیں، تاکہ جن مصلحتوں سے وہ نابلد ہیں، ان میں سے کوئی مصلحت چھوٹ نہ جائے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اٹھو اور جنت کی طرف چل پڑو، جس کی چوڑائی آسمانوں او زمین کے مساوی ہے“ یعنی جلدی کرو اور اپنی جانوں کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے میں تاخیر نہ کرو۔ اس کے بدلے میں جنت ملے گی، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ یہ مسلمانو کو کفار سے لڑنے کی ترغیب اور اس پر ابھارنے کے قبیل سے ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! (کیا واقعی) اس جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے بقدر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اس پر انھوں نے کہا: بہت خوب، بہت خوب! ایسا انھوں نے اس خوش خبری کی اہمیت اور عظمت کو جتلانے کے لیے کہا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”یہ بہت خوب، بہت خوب کیوں کہہ رہے ہو؟“ یعنی اس کی وجہ کیا ہے؟ کوئی خوف تو نہیں ہے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں یا رسول اللہ! یہ تو اس امید میں ہے کہ شاید میں بھی جنتیوں میں شامل ہونے کی سعادت کر سکوں۔ یعنی فقط جنت میں جانے کی چاہت میں میں نے یہ بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم جنتیوں میں سے ہو“ یہ نبی ﷺ کی طرف سے اپنے صحابہ کو جنت کی خوش خبری تھی، تاکہ انھیں عمل خیر پر مہمیز کیا جا سکے۔ جب عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ نے نبی صادق و مصدوق سے یہ بشارت سنی، جو اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، تو انھوں نے اپنے 'قرن' سے کچھ کھجوریں نکالیں۔ 'قرن' سے مراد وہ تھیلی ہے، جس میں عموما کھانے کی چیز رکھی جاتی ہے اور جسے مجاہد اپنے ساتھ رکھتا ہے- پھر کھانا شروع ہو کردیا، لیکن انھیں زندگی لمبی لگی، چنانچہ کہنے لگے: اگر میں اپنی یہ کھجوریں کھانے تک زندہ رہتا ہوں، تو یہ بہت لمبی زندگی ہو گی! اتنا کہہ کر انھوں نے اپنے پاس کی بقیہ کھجوریں پھینک دیں، آگے بڑھے اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے، اللہ ان سے راضی ہوجائے۔