عن شريح بن هانئ، قال: أتيتُ عائشة أسألها عن المسح على الخُفَّين، فقالت: عَلَيْكَ بِابْنِ أبِي طالب، فَسَلْهُ فإِنَّه كان يُسَافِرُ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألناه فقال: «جَعَلَ رسول الله صلى الله عليه وسلم ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ للمسافر، ويوما وليلة للمُقيم».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...

شریح بن ہانی بیان بیان کرتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھنے آیا (کہ اس کی مدت کتنی ہے؟)، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ابن ابی طالب کے پاس جا کر پوچھو کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے (موزوں پر مسح کرنے کی مدت)تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر فرمائی ہے۔
صحیح - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

شرح

شریح بن ہانی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس موزوں پر مسح کرنے کی مدت کے بارے میں استفسار کے لئے آئے۔ یہ استفسار اس وقت ہوا جب کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں علی رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا؛ کیونکہ وہ مسح کی سنت کو زیادہ جاننے والے تھے۔ شریح ابن ہانی کہتے ہیں کہ: ”ہم نے ان سے مسح کے بارے میں پوچھا“یعنی اس کی مدت کے بارے میں دریافت کیا۔ مسح کا معنی ہے عضو پر گیلا ہاتھ پھیرنا۔ خُف (موزہ) چمڑے سے بنا جوتا ہوتا ہے جو ٹخنوں کو ڈھانپ لیتا ہے اور ’جَورَب (پائتابہ) کسی بھی شے سے بنے ہوئے پاؤں کے غلاف کو کہتے ہیں چاہے وہ بال کا ہو یا اون کا، چاہے وہ موٹا ہو یا پتلا، یہ ٹخنوں سے اوپر تک ہوتا ہے اور سردی سے بچاؤ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، مسح کرنے میں جورب کا حکم بھی وہی ہے جو خُف کا ہے۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس کی مدت مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات ہے۔ اس میں جمہور علماء کے مسلک کی دلیل ہے کہ مسح کی مدت مسافر کے لئے تین دن اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات ہے۔ مسافر کی مدت زیادہ اس لیے رکھی گئی ہے کیونکہ سفر کی مشقت کی وجہ سے وہ مقیم کی بنسبت رخصت کا زیادہ حق دار ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی کردی ہاؤسا
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔