عن سبيعة الأسلمية رضي الله عنها أنها كانت تحت سعد بن خولة -وهو من بني عامر بن لؤي، وكان ممن شهد بدرا- فتوفي عنها في حجة الوداع، وهي حامل. فلم تنشب أن وضعت حملها بعد وفاته.
فلما تعلت من نفاسها؛ تجملت للخطاب، فدخل عليها أبو السنابل بن بعكك -رجل من بني عبد الدار- فقال لها: ما لي أراك متجملة؟ لعلك ترجين النكاح؟ والله ما أنت بناكح حتى يمر عليك أربعة أشهر وعشر.
قالت سبيعة: فلما قال لي ذلك: جمعت علي ثيابي حين أمسيت، فأتيت رسول صلى الله عليه وسلم فسألته عن ذلك؟ فأفتاني بأني قد حللت حين وضعت حملي، وأمرني بالتزويج إن بدا لي».
وقال ابن شهاب: ولا أرى بأسا أن تتزوج حين وضعت -وإن كانت في دمها-، غير أنه لايقربها زوجها حتى تطهر.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں، جو کہ قبیلۂ بنو عامر بن لؤی سے تعلق رکھتے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔ حجۃ الوداع کے سال ان کا انتقال ہو گیا جب کہ وہ حاملہ تھیں۔ ان کی وفات کے کچھ بعد ہی انہوں نے اپنا بچہ جن دیا۔
جب وہ اپنی مدتِ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو انہوں نے شادی کے پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا (اور زیب وزینت کے ساتھ رہنے لگیں)۔ ان کے پاس قبیلۂ بنی عبد الدار کے ایک آدمی ابو سنابل بن بعکک (رضی الله عنہ) آئے اور کہنے لگے: کیا بات ہے میں تمہیں بنی سنوری دیکھ رہاں ہوں؟ لگتا ہے تم شادی کرنا چاہ رہی ہو؟ اللہ کی قسم! تم اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتى جب تک کہ چار مہینہ دس دن (كى عدت) مکمل نہ ہو جائے۔
سبیعہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: جب انہوں نے مجھے ایسی بات کہی تو شام کے وقت میں اپنے کپڑے اوڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور آپ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے مجھے فتوی دیا کہ: جس وقت میں نے بچہ جنا تھا اسی وقت سے میں حلال ہو چکی ہوں اور آپ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اگر چاہوں تو شادی کرلوں۔‘‘
ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ بچہ جننے کے (فوراً) بعد شادی کر لے، اگرچہ اس کا خون ابھی جاری ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن نفاس سے پاک ہونے سے پہلے اس کا شوہر اس کے قریب نہیں جائے گا۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ وفات پاگئے جب کہ ان کی بیوی سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا حاملہ تھیں۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ انہوں نے اپنے بچے کو جن دیا۔ جب وہ اپنے نفاس سے پاک ہو گئیں تو انہوں نے بناؤ سنگھار کیا۔ انہیں علم تھا کہ وضع حمل کے ساتھ ہی وہ اپنی عدت سے نکل چکی ہیں اور ان کے لیے دوسرے مردوں سے شادی کرنا جائز ہو گیا ہے۔ ایسے میں ابو السنابل رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے۔ انہیں بنی سنوری دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ وہ شادی کا پیغام بھیجنے والوں کے لئے تیاری كی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد پر ان کے اس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ ان کی عدت ابھی ختم نہیں ہوئی اور انھوں نے قسم کھا کر کہا کہ ان کے لیے چار ماہ دس دن گزرنے سے پہلے نکاح کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ ”تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وه عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس (دن) عدت میں رکھیں“۔ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے علم کی صحت پر یقین نہیں تھا، جب کہ اس آنے والے شخص نے اپنی بات کی تاکید قسم اٹھا کر کی تھی۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ عليہ وسلم ﷺ کے پاس آئیں اور آپ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے انہیں فتوی دیا کہ وہ وضع حمل کے ساتھ ہی شادی کے لیے حلال ہو گئی تھیں۔ لھٰذا اگر وہ شادی کرنا چاہیں تو ان کو اجازت ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَأولاتُ الأحمال أجلُهُن أن يضَعْنَ حَمْلَهُن﴾ ”اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے“۔ چنانچہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حاملہ ہو اس کی عدت بچہ جننے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے اور اگر وہ حاملہ نہ ہو تو پھر اس کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے۔