عن أم سلمة رضي الله عنها مرفوعاً: «جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، إن ابنتي توفي عنها زوجها، وقد اشتكت عينها أفَنَكْحُلُها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا -مرتين، أو ثلاثا-، ثم قال: إنما هي أربعة أشهر وعشر، وقد كانت إحداكن في الجاهلية ترمي بالبَعْرَةِ على رأس الحول».
فقالت زينب: كانت المرأة إذا توفي عنها زوجها: دخلت حفشا، ولبست شر ثيابها، ولم تَمَسَّ طيبا ولا شيئا حتى تمر بها سنة، ثم تؤتى بدابة -حمار أو طير أو شاة- فتَفْتَضُّ به! فقلما تفتض بشيء إلا مات! ثم تخرج فتُعطى بعرة؛ فترمي بها، ثم تراجع بعد ما شاءت من طيب أو غيره».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میری بیٹی کا خاوند وفات پا گیا ہے اور اس کی آنکھ دکھتی ہے، کیا ہم اس کی آنکھ میں سر مہ لگا سکتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں، آپ ﷺ نے ایسا دو یا تین دفعہ کہا، اور پھر فرمایا: ”یہ صرف چار ماہ اور دس دن ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں تو تم عورتيں سال کے اختتام پر مینگنی پھینکا کرتی تھيں“۔ زینب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: (زمانہ جاہلیت میں) جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں چلی جاتی،اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنتی، وہ نہ خوشبو لگاتی اورنہ ہی زیب وزینت کی کوئی اور چیز استعمال کرتی یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ایک سال گزر جاتا۔ پھر کسی جانور - گدھے، یا پرندے یا بکری - کو اس کے پاس لایا جاتا اور وہ (عدت سے باہر آنے کے لیے) اس کے ساتھ اپنا جسم رگڑتی۔ ایسا کم ہوتا تھا کہ وہ جس سے اپنا جسم رگڑتی تھی وہ مر نہ جائے! پھر وہ باہر آتی اور اسے ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی۔ اس کے بعد وہ خوشبو یا جو بھی شے چاہتی استعمال کرتی۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اسلام نے آ کر لوگوں کو بارِ جاہلیت سے چھٹکارا دلایا، خاص طور پر عورت کو۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ عورت کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے اور اس پر ظلم ڈھاتے تھے۔چنانچہ اسلام نے عورت کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا۔ اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ ایک عورت نبی ﷺ سے ایک مسئلہ میں شرعی حکم دریافت کرنے کے لئے آئی۔ اس نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اس کی بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا اور وہ اس کی وفات پر سوگ میں بیٹھی ہے۔ سوگ میں بیٹھی عورت زیب و زنیت سے گریز کرتی ہے، لیکن اس کی آنکھوں میں درد ہے۔ تو کیا اس کے لیے سرمہ استعمال کرنے کی رخصت ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: نہیں۔ آپ ﷺ نے بطور تاکید بار بار ایسا فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے اس مدت میں کمی فرما دی جس میں عورت کا اپنے خاوند کی حرمت کے پیش نظر سوگ میں بیٹھنا ضروری ہے، اور وہ چار ماہ اور دس دن ہیں۔ تو کیا وہ اس تھوڑی سی مدت بھی صبر نہیں کر سکتی جس میں کچھ آسانی ہے۔ حالانکہ زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا یہ حال تھا کہ تم میں سے جو عورت سوگ میں ہوتی وہ جنگلی جانور کی بل کی طرح کے ایک چھوٹے سے گھر میں گھس جاتی اور زیب و زینت، خوشبو، پانی کے استعمال اور لوگوں کے ساتھ میل جول سے گریز کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے اس پر تہ در تہ میل کچیل اور گندگیاں جم جاتیں۔ وہ پورے ایک سال لوگوں سے الگ تھلگ رہتی۔ جب اس سے وہ فارغ ہوتی تو اسے ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینک دیتی۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ اس پر جو تنگی و سختی اور پریشانی آئی ہے وہ خاوند کے حق کے مقابلے میں اس مینگنی کے بھی برابر نہیں۔ اسلام نے آکر اس سختی کو ان کے لیے نعمت اور تنگی کو کشادگی میں بدل دیا۔ کیا اب وہ اپنی آنکھ میں سرمہ لگانے سے صبر نہیں کر سکتی۔ چنانچہاس کے لیے کوئی رخصت نہیں تاکہ کہیں سوگ پر بیٹھی عورت کے لیے اس کی وجہ سے زیب و زینت کا دروازہ نہ کھل جائے۔