عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: «قد أصاب عمر أرضًا بخيبر. فأتى النبي صلى الله عليه وسلم يستأمره فيها. فقال: يا رسول الله، إني أصبت أرضًا بخيبر، لم أُصِبْ مالًا قَطُّ هو أنفس عندي منه، فما تأمرني به؟ فقال: إن شِئْتَ حَبَّسْتَ أصلها، وتصدقت بها.
قال: فتصدق بها، غير أنه لا يُباع أصلها، ولا يوهب، ولا يورث.
قال: فتصدق عمر في الفقراء، وفي القربى، وفي الرقاب، وفي سبيل الله، وابن السبيل، والضيف. لا جناح على من وليها أن يأكل منها بالمعروف، أو يطعم صديقًا، غير مُتَمَوِّلٍ فيه»، وفي لفظ: «غير مُتَأثِّلٍ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر میں زمین ملی تو وہ نبی ﷺ کے پاس اس کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوئے اورعرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے خیبر میں ایسی زمین ملی ہے کہ اس جیسا مال مجھے کبھی نہیں ملا اور میرے نزدیک وہ سب سے محبوب چیز ہے۔آپ ﷺ مجھے اس بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو اصل زمین اپنے پاس روک رکھو اور اس کی پیداوار صدقہ کردو‘‘ ۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اس شرط پر وقف کیا کہ اس کی ملکیت نہ فروخت کی جائے نہ خریدی جائے اور نہ میراث بنے اور نہ ہبہ کی جائے۔ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے فقرا اور رشتہ داروں اور غلام آزاد کرنے میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں میں، مہمانوں میں صدقہ کردیا اور جو اس کا منتظم ہو وہ اس میں سے نیکی کے ساتھ (جائز بھر) کھائے یا اپنے دوستوں کو کھلائے تو کوئی حرج نہیں ، لیکن اس سے مال جمع نہ کرے۔ اور ایک دوسرے لفظ میں (غیر متاثل) ہے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں زمین ملی، اس کی مقدار سو سہم (حصے) تھی۔ یہ آپ کے مال میں سے سب سے مہنگا مال تھا، اس لیے کہ یہ بہت عمدہ زمین تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نیکیوں میں آگے بڑھتے تھے۔ قرآن کریم کی آیت {لَنْ تَنَالوا البِرً حَتًى تُنْفِقُوا مِمًا تُحِبونَ } کے پیشِ نظر نیکی کی لالچ کرتے ہوئے آپ ﷺ کے پاس آئے تاکہ اس کو اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کرنے کے بارے میں مشورہ کریں۔ آپ ﷺ نے صدقہ کرنے کا سب سے اچھا مشورہ دیا یعنی اصل زمین کو پاس رکھ کر اس کی پیداوار کو صدقہ کردو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، وہ زمین وقف ہوگئی، اس کو نہ بیچا جا سکتا تھا، نہ ہدیہ کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی اس میں وراثت یا کوئی اور ایسا تصرف ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے اس کی ملکیت کسی اور کی طرف منتقل ہو یا انتقالِ ملکیت کا سبب بنے۔ اس کو فقیروں و مسکینوں، عزیز و اقارب، غلام کو چھڑانے، جن پر دیت واجب ہو ان کی طرف سے دیت کی ادائیگی کے لیے، اللہ کے دین کی مدد اور دین کی سربلندی کے لیے لڑنے والے مجاہدین کے تعاون کے لیے، وہ مسافر جو اپنے شہر سے دور ہو اور اس کا زادِ راہ ختم ہو گیا ہو نیز مہمانوں کو کھلانے کے لیے وقف کردیا۔ مہمان کا اکرام کرنا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا حصہ ہے۔ یہ ضروت مند کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے اور نیکی اور بھلائی کے کام کی نگرانی بھی ہے اور ساتھ ساتھ مالکِ زمین سے حرج اور گناہ کو دور کرنا ہے کہ وہ اچھے طریقے سے خود بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس سے کھا سکتا ہے اور اس دوست کو بھی کھلا سکتا ہے جس کے پاس ضرورت سے زیادہ مال نہ ہو۔ یہ خیر اور احسان کے راستے میں مال کا خرچ کرنا ہے۔ نہ کہ مال جمع کرکے مالدار ہونا مقصود ہو۔ تنبیہ: وقف یہ ہے کہ مسلمان اپنے مال کو صدقہ کر کے اس کی پیداوار کو بھلائی کے جس کام میں چاہے استعمال کرسکتا ہے، پیداوار کو اسی مصرف میں خرچ کرکے اصل مال کو باقی رکھا جائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کھیتی فقراء پر وقف کردے، تو پھل اور پیدا ہونے والی فصل فقراء کو دے دی جائے گی اور کھیتی ان کے پاس باقی رہے گی۔