عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع حَبَلِ الحَبَلَةِ ،وكان بيعا يتبايعه أهل الجاهلية، وكان الرجل يبتاع الجَزُورَ إلى أن تُنتِجَ الناقة، ثم تُنتِج التي في بطنها.
قيل: إنه كان يبيع الشارف -وهي الكبيرة المسنة- بنتاج الجنين الذي في بطن ناقته.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا۔ اس بیع کا طریقہ جاہلیت میں رائج تھا۔ ایک شخص ایک اونٹ یا اونٹنی خریدتا اور قیمت دینے کی میعاد یہ مقرر کرتا کہ ایک اونٹنی جنے پھر اس کے پیٹ کی اونٹنی بڑی ہو کر جنے۔
یہ بھی کہا گیا کہ ایک شخص اونچی کوہان والی اونٹنی بیچتا تھا اور وہ بڑی عمر کی ہوتی، اس بچے کے جنم کی شرط پر، جو اس کی اونٹنی کے پیٹ میں ہے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
یہ بیع ان بیوع میں سے ہے، جو حرام ہیں۔ اس کی مشہور دو تفسیریں ہیں: 1- اس کا معنیٰ تعلیق ہے، یعنی کوئی چیز اس طرح ادھار پر بیچنا کہ جانور کے پیٹ میں موجود بچے کی ولادت، پھر اس کے بچے کی ولادت پر اس کی مدت ختم ہو۔ اس سے منع کیا گیا ہے، اس لیے کہ اس میں قیمت مجہول ہے اور جس مدت کے ساتھ قیمت کو معلق کیاگیا ہے، وہ لمبی بھی ہوسکتی ہے اور مختصر بھی۔ 2- اس کے معنی معدوم اور مجہول چیز کو بیچنے کے ہیں۔ یعنی ایک سالہ جانور کے پیٹ میں موجود حمل سے پیدا ہونے والے بچے کو بیچنا۔ اس سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اس میں بہت زیادہ ضرر اور غرر (غیریقینی صورتحال) ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ بچہ مادہ ہی ہوگا، ایک ہوگا یا دو، مردہ ہوگا یا زندہ اور کتنے عرصے میں پیدا ہوگا؟ یہ مجہول بیوع میں سے ہے، جس کا ضرر بہت زیادہ ہوتا ہے اور جھگڑے کا سبب بنتا ہے۔ یعنی مسئلے کی چار صورتیں ہیں: پہلی یہ کہ جانور کے حمل کو بیچنا۔ دوسری یہ کہ جانور کے حمل کے حمل کو بیچنا۔ اس میں بیچی جانے والی چیز مجھول ہے۔ تیسری یہ کہ بیچی جانے والی چیز مؤجل ہو، یعنی جس مدت میں وہ چیز مشتری کی ملکیت ہوگی، وہ جانور کا بچہ ہونے یا اس کے بچے کا بچہ ہونے تک مؤخر ہو۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ مبیع غیر معلق (دستیاب) ہو ،لیکن قیمت مؤجل ہو جس کی مدت مجہول ہو۔