عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال: كانت عُكَاظُ، ومَجِنَّةُ، وذُو المجَازِ أسوَاقَاً في الجاهلية، فَتَأَثَّمُوا أنْ يَتَّجِرُوا في المواسم، فنزلت: {ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلاً من ربكم} "البقرة" (198) في مواسم الحج.
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار تھے، اس لیے (اسلام کے بعد) زمانۂ حج میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو آیت نازل ہوئی کہ ’’لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ.(البقرۃ: 198)‘‘۔
ترجمہ: تم پر اپنے رب کا فضل (روزی روٹی) تلاش کرنے میں کوئی گناه نہیں ہے ـــــــــــــ یعنی زمانہ حج میں۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
اسلام سے قبل یہ جگہیں مشرکین کے بازار ہوا کرتی تھیں جن میں وہ ایامِ حج کے دوران خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ نہ ہو کہ ایامِ حج میں ان بازاروں میں خرید و فروخت کی وجہ سے وہ گناہ گار ہو جائیں۔ اس پر اللہ تعالی نے اس بات کی وضاحت کے لیے یہ آیت نازل فرمائی کہ زمانۂ حج میں تجارت حج کو فاسد نہیں کرتی جب کہ مناسک حج کو شرعی طریقے سے ادا کر دیا جائے۔ اگرچہ ایام حج میں تجارت کرنا جائز ہے تاہم اولی اور زیادہ بہتر یہی ہے کہ مکمل طور پر مناسک حج کی ادائیگی کے لیے فارغ رہا جائے۔ یہ زیادہ افضل ہے۔