عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما مِن بَني آدم مَوْلودٌ إلا يَمَسُّه الشيطانُ حِين يُولَد، فيَسْتَهِلُّ صارخا مِن مَسِّ الشيطان، غير مريم وابنها» ثم يقول أبو هريرة: {وإنِّي أُعِيذُها بك وذُرِّيَّتَها من الشَّيطان الرَّجِيمِ}.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: "بنی آدم میں سے جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے، شیطان اس کی ولادت کے وقت اسے کچوکے لگاتا ہے اور وہ شیطان کے کچوکے سے چیخ کر رو دیتا ہے۔ البتہ مریم اور ان کا بیٹا دونوں اس سے مستثنی ہیں"۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ آیت پڑھتے تھے: {وإنِّي أُعِيذُها بك وذُرِّيَّتَها من الشَّيطان الرَّجِيمِ} یعنی میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے، شیطان اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے اور بچہ چیخ کر رو دیتا ہے۔ ولادت کے ٹھیک بعد بچے کے رونے کا سبب شیطان کا یہی کچوکا ہے جو وہ اسے لگاتا ہے۔لیکن مریم اور ان کے بیٹے عیسی علیہما السلام اس سے مستثنی ہیں۔ اللہ نے دونوں کو ولادت کے وقت شیطان کے کچوکے سے محفوظ رکھا۔ کیونکہ مریم کی ماں نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی تھی: {وإنِّي أُعِيذُها بك وذُرِّيَّتَها من الشَّيطان الرَّجِيمِ} (میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔) چنانچہ اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے, رحمت الہی سے دور کئے ہوئے شیطان کے کچوکے سے, مریم اور ان کے بیٹے عیسی علیہما السلام کو, محفوظ رکھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیطان کا یہ چھونا یا کچوکا لگانا حقیقی معنی پر محمول ہے۔ اس کے معنی شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کى لالچ کرنا نہیں ہے، جیسا کہ بعض معتزلہ کا دعوی ہے۔ صاف ستھری بات یہ ہے کہ اس پر اس کے حقیقی معنوں کے مطابق ہی ایمان رکھنا ضروی ہے۔ یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔