عن ابن عباس رضي الله عنه قال: لمَّا كان يومُ بدْر نظر رسولُ الله صلى الله عليه وسلم إلى المشركين وهم ألف، وأصحابه ثلاثُمائة وتسعة عشر رجلا، فاستقبل نبيُّ الله صلى الله عليه وسلم القبلةَ، ثم مدَّ يديْه، فجعل يَهْتِف بربِّه: «اللهمَّ أَنْجِزْ لي ما وعدْتَني، اللهم آتِ ما وعدْتَني، اللهمَّ إنْ تَهْلِك هذه العِصابةُ من أهْل الإسلام لا تُعْبَد في الأرض»، فما زال يَهْتِف بربِّه، مادًّا يديْه مستقبلَ القِبلة، حتى سقط رِداؤه عن مَنْكبيه، فأتاه أبو بكر فأخذ رِداءه، فألقاه على مَنْكبيه، ثم التَزَمه مِن وَرَائه، وقال: يا نبيَّ الله، كفاك مناشَدَتَك ربَّك، فإنَّه سيُنْجِز لك ما وعَدَك، فأنزل الله عز وجل : {إذ تستغيثون ربَّكم فاستجاب لكم أنِّي مُمِدُّكم بألف من الملائكة مُرْدِفين} [الأنفال: 9] فأمدَّه اللهُ بالملائكة، قال أبو زميل: فحدثني ابن عباس، قال: بينما رجلٌ من المسلمين يومئذ يشتَدُّ في أَثَر رَجُلٍ من المشركين أمامه، إذ سَمِع ضربةً بالسَّوْط فَوْقَه وصَوْت الفارس يقول: أقدِم حَيْزُوم، فنَظَر إلى المشرك أمامه فخَرَّ مُسْتَلْقيًا، فنظر إليه فإذا هو قد خُطِمَ أنفُه، وشُقَّ وجهُه، كضرْبة السَّوْط فاخْضَرَّ ذلك أجمعُ، فجاء الأنصاري، فحدَّث بذلك رسولَ الله صلى الله عليه وسلم ، فقال: «صدَقْتَ، ذلك مِن مَدَدِ السماء الثالثة»، فقَتَلوا يومئذ سبعين، وأَسَروا سبعين، قال أبو زميل، قال ابن عباس: فلمَّا أَسَروا الأُسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر وعمر: «ما تَرَوْن في هؤلاء الأُسارى؟» فقال أبو بكر: يا نبي الله، هم بنو العَمِّ والعَشِيرة، أَرَى أن تَأْخُذ منهم فِدْيَةً فتكون لنا قوَّةً على الكفار، فعسى اللهُ أنْ يهديَهم للإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «ما تَرى يا ابنَ الخطَّاب؟» قلت: لا واللهِ يا رسول الله، ما أرى الذي رأى أبو بكر، ولكني أرى أنْ تُمَكِنَّا فَنَضْرب أعناقَهم، فتُمَكِّنْ عليًّا من عَقِيل فيضرب عنقَه، وتُمَكِّنِّي من فلان نسيبًا لعمر، فأضرب عنُقه، فإن هؤلاء أئمةُ الكفر وصَناديدُها، فهَوِيَ رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال أبو بكر، ولم يَهْوَ ما قلتُ، فلمَّا كان من الغَدِ جئتُ، فإذا رسولُ الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر قاعدين يبكيان، قلتُ: يا رسول الله، أخبرني مِن أي شيء تبكي أنت وصاحبُك؟ فإن وجدتُ بكاءً بكيْتُ، وإن لم أجد بكاء تَباكيْتُ لِبُكائكما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أبكي للذي عُرِضَ على أصحابك مِن أخذِهم الفِداء، لقد عُرِضَ عليَّ عذابَهم أدْنى مِن هذه الشجرة -شجرةً قريبةً من نبي الله صلى الله عليه وسلم- وأنزل الله عز وجل : {ما كان لِنَبِيٍّ أن يكون له أَسرى حتى يُثْخِنَ في الأرض} [الأنفال: 67] إلى قوله {فكلوا مما غَنِمْتُم حلالا طيِّبا} [الأنفال: 69] فأحلَّ الله الغنيمةَ لهم.
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس دن بدر کی لڑائی ہوئی اس دن رسول اللہﷺ نے مشرکوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپ ﷺکے اصحاب تین سو انیس آدمی تھے۔ اللہ کے نبی ﷺنے قبلہ کی طرف منھ کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور پکار کر اللہ سے دعا کرنے لگے،’’ اےاللہ! جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر دے، اے اللہ! جو تو نے وعدہ کیا ہے اسے تو دے دے، اے اللہ! اگر یہ مسلمانوں کی جماعت ہلاک ہو گئی، تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی‘‘۔ پھر آپ ﷺاپنے ہاتھ کو پھیلائے ہوئے برابر یہ دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپﷺ کی چادر آپ کے دونوں مونڈھوں سے اتر گئی، ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپﷺ کی چادر کو لیا، اور آپﷺ کےمونڈھے پر ڈال دی، پھرآپﷺ کے پیچھے لپٹ گئے اور فرمایا: اے اللہ کے نبیﷺ! بس آپ کی اتنی دعا کافی ہے، اب اللہ تعالی آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا، اس وقت اللہ نے یہ آیت اتاری ﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ﴾ ”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سےفریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے“۔ (الانفال: 9) چنانچہ اللہ نےفرشتوں کے ذریعہ آپ ﷺ کی مدد کی۔ ابو زمیل نے مجھ سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بتایا کہ اس دن مسلمانوں میں سے ایک آدمی مشرکین کے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو اس کے آگے تھا، اتنے میں اوپر سے اس کے کان میں کوڑے کی آواز سنائی دی اور ایک گھوڑسوار کی آواز سنائی دی، وہ کہتا تھا ، آگے بڑھ اے حیزوم! پھر دیکھا کہ وہ کافر جو اس مسلمان کے سامنے تھا چت گر پڑا، جب اس وقت مسلمان نے دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا منھ پھٹ گیا تھا، جیسے کوئی کوڑا مارتا ہے اور اس کا رنگ سبز پڑ گیا تھا۔ پھر وہ انصاری صحابی رسولﷺ کے پاس آئے اور واقعہ بیان کیا۔ آپ ﷺنے فرمایا :تو سچ کہتا ہے، یہ مدد تیسرے آسمان سے آئی تھی۔ چنانچہ مسلمانوں نےاس دن ستر کافروں کو مارا تھا، اور ستر کافروں کو گرفتار کیا تھا۔ ابو زمیل نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب قیدیوں کو گرفتار کر کے لائے تو رسول ﷺ نےابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے کہا ’’ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے،، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے نبی ﷺ!یہ ہمارے قبیلے اور برادری کے لوگ ہیں میرے خیال سے کچھ مال لے کر انہیں چھوڑ دیجیے جس سے مسلمانوں کو کافر وں سے لڑنے کی طاقت ہو جائے گی، ممکن ہے انہیں اللہ اسلام کی ہدایت دے دے۔ رسول اللہ ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ’’ابنِ خطاب! ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے کہا نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! یہ میری رائے نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، لیکن میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیں اور ہم ان کی گردنیں مار دیں، اور عقیل کو علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کریں وہ ان کی گردن ماریں اور مجھے میرا فلاں عزیز دیجیے میں اس کی گردن مار دوں، کیونکہ یہ لوگ کفر کے پیشوا اورسردار ہیں۔ چنانچہ رسول ﷺ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی اور میری رائے پسند نہیں آئی۔ جب دوسرا دن ہوا تو رسول اللہ ﷺ کے پاس میں آیا آپﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ دونوں رو رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر رونے والی چیز ہے تو میں بھی روؤں، اور اگر مجھے رونا نہیں آیا تو رونے کی کیفیت بنا لوں گا ، نبیﷺنے فرمایا: میں رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں پر فدیہ لینے کی وجہ سے میرے سامنے ان کا عذاب اس درخت (نبیﷺ کےپاس درخت) سے بھی زیادہ نزدیک پیش کیا گیا پھر اللہ نے یہ آیت اتاری ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ﴾ سے ﴿فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا﴾ تک۔ ”نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہیے جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا اراده آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی پس جو کچھ حلال اور پاکیزه غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ پیو“، چنانچہ اللہ نے ان کے لیے غنیمت کو حلال کردیا۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
جس دن بدر کی لڑائی ہوئی اس دن رسول ﷺ نے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپ ﷺکے اصحاب تین سو انیس آدمی تھے، نبیﷺ نے مشرکین کے مقابلے اپنے اصحاب کی قلت کو جان لیا، تو اللہ کے نبی ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور پکار کر اللہ سے دعا کرنے لگے،’’اےاللہ! جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر دے۔ اے اللہ! جو تو نے وعدہ کیا ہے اسے تو دے دے۔ اے اللہ! اگر تو نے ان مسلمانوں کو ہلاک کر دیا، تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی،، یعنی: اےاللہ! جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر دے، اور مسلمانوں کو کافروں پر غالب فرما۔ اگر تو نے ان مسلمانوں کو ہلاک کر دیا، تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی،، پھر آپ ﷺاپنے ہاتھ کو پھیلائے ہوئے برابر یہ دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی چادر آپ کے دونوں مونڈھوں سے اتر گئی، ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپﷺ کی چادر کو لیا، اور آپﷺ کےمونڈھے پر ڈال دی، پھر آپﷺ کے پیچھے لپٹ گئے اور فرمایا: اے اللہ کے نبیﷺ! بس آپ کی اتنی دعا کافی ہے، اب اللہ تعالی آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا، اس وقت اللہ نے یہ آیت اتاری﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ﴾ ”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سےفریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے“۔ (الانفال: 9) یعنی:جس وقت اللہ سے فریاد طلب کر رہے تھے اور اس سے مدد طلب کر رہے تھے، تو اللہ نے تمہاری دعا قبول کی اور ایک ہزار پہ در پہ آنے والے فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کی۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خبر دیا کہ اس دن مسلمانوں میں سے ایک آدمی مشرکین کے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا تاکہ اسے قتل کرے، اتنے میں اس نے کوڑے اور گھوڑسوار کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا، ’’آگے بڑھ اے حیزوم!‘‘ پھر دیکھا کہ وہ مشرک گرا پڑا ہے۔ اور اس کے چہرے میں ناک پر کوڑے کا نشان تھا اور اس کا منھ پھٹ گیا تھا۔پھر اس انصاری صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سب بیان کیا، تو آپ ﷺ نے اسے خبر دیا کہ وہ تیسرے آسمان کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ تھا اور حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نےاس دن ستر کافروں کومارا تھا، اور ستر کافروں کو گرفتار کیا تھا، جب ان قیدیوں کو گرفتار کر کے لائے تو رسول ﷺ نےابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے کہا ’’ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟،، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے نبی ﷺ!یہ ہمارے قبیلے اور برادری کے لوگ ہیں میرے خیال سے کچھ مال لے کر انہیں چھوڑ دیجیے جس سے مسلمانوں کو کافر وں سے لڑنے کی طاقت ہو جائے گی، ممکن ہے انہیں اللہ تعالی اسلام کی ہدایت دے دے۔ جب کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتا، میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیں اور ہم انہیں قتل کر دیں، اور ان قیدیوں کو ہم میں سے ہر ایک قریبی اپنے قریبی کو قتل کرے، کیونکہ یہی لوگ کفر کے پیشوا اور گمراہی کے سردار ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کو ابو بکررضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی اور عمر رضی اللہ عنہ کی رائے پسند نہیں آئی، جب دوسرا دن ہوا تو رسول اللہ ﷺ کے پاس عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے آپﷺ اورابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ دونوں بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بتلائیں کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر رونے والی چیز ہے تو میں بھی روؤں، اور اگر مجھے رونا نہیں آیا تو رونے کی کیفیت تو بنا لوں! اس پر نبیﷺنے فرمایا: کہ وہ اس لیے رو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جنہوں نے قیدیوں سے فدیہ لینے کی بات کی ان پر عذاب پیش کیا، اور ان پر عذاب اس درخت سے بھی قریب ترپیش کیا گیا، ’’نبی ﷺ کے قریب ایک درخت تھا اس درخت کی طرف اشارہ ہے‘‘۔ اللہ عز وجل نے یہ آیت ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ﴾ سے ﴿فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا﴾ تک اتاری۔ ”نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہیے جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا اراده آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ملتی پس جو کچھ حلال اور پاکیزه غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ غفور ورحیم ہے“، یعنی وہ کفار جو اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور دین کو نیست ونابود کرنا چاہتے ہیں ان سے فدیہ لے کر چھوڑنا مناسب اور ٹھیک نہیں، کیونکہ یہ فدیہ لینا ایک معمولی چیز ہے بنسبت ان کے اس شر اور برائی کے جس کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے اس شر کو ختم کر دیا جائے، کیونکہ جب تک ان کا یہ شراور طاقت نیست و نابود نہ ہوگا اس وقت تک ان سے فدیہ نہ لیا جائے، لیکن جب ان کا شر ختم ہو جائے اور وہ کمزور پڑ جائیں تو اس وقت انہیں باقی رکھنے اور ان سے فدیہ لینے میں کوئی حرج نہیں، پھر اللہ نےمسلمانوں کے لیے کافروں سے زبردستی لیے گئے اموال کو حلال کر دیا۔