عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه مرفوعًا: «من باع نخلًا قد أُبِّرَتْ فَثَمَرُهَا للبائع، إلا أن يشترط المُبْتَاعُ».
وفي رواية: «ومن ابْتَاعَ عبدا فمالُه للذي باعه إلا أن يشترط المُبْتَاعُ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کھجور کے ایسے درخت بیچے، جن کی تلقیح کی جاچکی ہو، تو ان کا پھل بیچنے والے کا ہوگا، سوائے اس کے کہ خریدنے والے نے شرط لگا دی ہو“۔
اور ایک روایت میں ہے: ”جس نے اپنا غلام بیچا، اس (غلام) کا مال بیچنے والے کا ہو گا، الا کہ خریدار شرط لگا دے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
’تابیر‘ (پیوندکاری) کا حق فروخت کنندہ کو حاصل ہے اور درخت کے پھل پر بھی یہی حکم عائد ہوگا۔ (یعنی وہ بھی فروخت کنندہ کا ہو گا) کیوں کہ اس پھل کے سبب یعنی پیوندکاری کو اسی نے سر انجام دیا ہے۔ سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے کہ پھل اس کا ہو گا۔ اگر کھجوروں کی پیوند کاری ہو چکی ہو اور فروخت کنندہ اس شرط کو قبول کر لے، تو فروخت کنندہ اور خریدار اپنے مابین طے شدہ شرط کے پابند ہوں گے (اور یوں پھل خریدار کا ہو جائے گا)۔ یہی حکم اس غلام کا ہے، جس کے ہاتھ میں اس کے آقا نے کچھ مال تھما رکھا ہو۔ اگر وہ اسے فروخت کر دے، تو اس کے ہاتھ میں موجود مال اس کے آقا کا ہوگا، جس نے اسے بیچا ہے۔ کیوں کہ عقد ِبیع میں یہ مال شامل نہیں۔ الا یہ کہ خریدار اس پورے مال یا اس کے کچھ حصے کی شرط لگا دے (کہ وہ بھی عقد میں شامل ہوگا)، تو وہ عقدِ بیع میں شامل ہو جائے گا۔