عن أبي صَفْوان سُوَيْدِ بن قيس رضي الله عنه قال: جَلَبْتُ أنا وَمَخْرَمَةُ العَبْدِيُّ بَزًّا من هَجَر، فجاءنا النبي صلى الله عليه وسلم فَسَاوَمَنَا بسَرَاوِيلَ، وعندي وَزَّانٌ يَزِنُ بالأَجْر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للوَزَّان: «زِنْ وأرْجِح».
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي والنسائي والدارمي]
المزيــد ...
ابو صفوان سوید بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اور مخرمہ عبدی ہجر کے علاقے سے کچھ کپڑا خرید کر لائے۔ رسول اکرم ﷺ ہمارے پاس سے گزرے ہم سے کچھ شلواروں کا بھاؤ طے کیا۔ میرے پاس ہی ایک وزن کرنے والا تھا جو اجرت لے کر تولا کرتا تھا۔ آپ ﷺ نے اس وزن کرنے والے کو مخاطب ہو کر کہا: ”تولو اور کچھ جھکتا ہوا تولو“۔
[صحیح] - [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
صفوان بن سوید اور مخرمہ عبدی - رضی اللہ عنہما - ہجر نامی ایک علاقے سے کچھ کپڑا لے کر آئے۔ ”فجاءنا النبي ﷺ فَسَاوَمَنَا بسَرَاوِيلَ“ یعنی نبی ﷺ ان سے کچھ شلواریں خریدنا چاہتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے بھاؤ تاؤ کیا۔ سنن نسائی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: "فاشترى منَّا سراويل" یعنی اس روایت میں بھاؤ تاؤ کا ذکر نہیں ہے۔ ”وعندي وَزَّانٌ يَزِنُ بالأَجْر“ یعنی بازار میں ایک وزن کرنے والا تھا جس سے لوگ پیسے دے کر وزن کرایا کرتے تھے۔ نبی ﷺ نے وزان سے کہا کہ: ”زِنْ وأرْجِح“ اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ نے وزن کرنے والے کو حکم دیا کہ جس پلڑے میں سودا ہو اُسے وزن کرتے ہوئے ذرا زیادہ رکھے تاکہ وہ کچھ جھک جائے اور دوسرے پلڑے سے ذرا وزنی ہو جائے۔ اس کا معنی یہ بالکل نہیں ہے کہ وہ بہت زیادہ جھک جائے کیوں کہ اس سے تو فروخت کنندہ کو نقصان ہو گا بلکہ مراد یہ ہے کہ تھوڑا سا جھک جائے بایں طور کہ یقین ہو جائے کہ خریدار نے بغیر کسی کمی کے اپنا پورا حق لے لیا ہے۔ وزن کرنے کی جو بات اس حدیث میں ہے اس کا تعلق شلواروں سے نہیں ہے اس لیے کہ شلوارون کو وزن نہیں کیا جاتا۔