عن جُذَامَةَ بنت وهب، أخت عكاشة، قالت: حَضَرْتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم ، في أناس وهو يقول: «لقد هَمَمْتُ أن أنهى عن الْغِيلَةِ، فَنَظَرْتُ في الروم وفارس، فإذا هم يُغِيلُونَ أولادهم، فلا يضر أولادهم ذلك شيئا»، ثم سألوه عن الْعَزْلِ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «ذلك الْوَأْدُ الخفي»، زاد عبيد الله في حديثه: عن المقرئ، وهي: {وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ}.
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
عکاشہ رضی اللہ عنہ کی بہن ، جُذامہ بنت وہب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے ہمراہ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ غیلہ (ایامِ رضاعت یاحمل میں جماع )کرنے سےلوگوں کو منع کردوں، پھر مجھے یاد آیا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔ پھر صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے ”عزل“ کے متعلق پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا:وہ تو خفیہ طور پر زندہ گاڑ دینا ہے۔ عبیداللہ نے مقری سے اپنی روایت میں ﴿وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ﴾ ”اور جب زنده گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا“ کا اضافہ کیا ہے۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے شوہر کو زمانۂ رضاعت میں بیوی کے قریب جانے اور اس سے ہمبستری کرنے سے منع کردینے کا ارادہ فرمایا کیونکہ عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ پیدا ہونے والی اولاد کو اس کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، پھر آپ ﷺ نے اس ارادہ کو اُس وقت ترک کردیا جب فارس اور روم جیسے بعض لوگوں میں اس کا نقصاندہ نہ ہونا، آپ ﷺ کے نزدیک ثابت ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ سے اُس شوہر کے بارے میں دریافت کیا گیا جو (انزال کے وقت) اپنی منی کو بیوی کی شرمگاہ کے باہر خارج کردیتا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے اس عمل کو ان اہلِ جاہلیت کے عمل سے تشبیہ دی جو اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے اور دونوں اعمال میں فرق یہ ہے کہ پہلا عمل خفیہ طور پر اور دوسرا علی الاعلان کیا جاتا ہے۔