عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «إذا صلى أحدكم الركعتين قبل الصبح، فليضطجع على يمينه»، فقال له مروان بن الحكم: أما يجزئ أحدنا ممشاه إلى المسجد حتى يضطجع على يمينه، قال عبيد الله في حديثه: قال: لا، قال: فبلغ ذلك ابن عمر، فقال: أكثر أبو هريرة على نفسه، قال: فقيل لابن عمر: هل تنكر شيئا مما يقول؟ قال: «لا، ولكنه اجترأ وجبنا»، قال: فبلغ ذلك أبا هريرة، قال: «فما ذنبي إن كنت حفظت ونسوا».
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي وأحمد]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی فجر کی دو سنتیں پڑھے تو اسے چاہیے کہ اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جائے۔ مروان بن حکم نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا مسجد تک چلنا کافی نہیں ہے جب تک کہ داہنی کروٹ پر نہ لیٹے؟ عبید اللہ کی روایت میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمايا:نہیں۔ راوی کہتے ہيں کہ جب اس بات کا علم ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ہوا تو فرمايا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کثرت سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گيا: کیا آپ ان کے کسی قول کی تردید کرتے ہیں؟ فرمایا: نہیں (بات یہ ہے کہ) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جرأت کی اور ہم نے خوف کیا۔ جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے فرمايا: ”اس میں میرا کیا قصور ہے کہ میں نے یاد رکھا اور وہ بھول گئے“۔
[صحیح] - [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
حديث ميں اس بات کا بيان ہے کہ فجر کی دو سنتيں پڑھنے کے بعد فرض نماز کی اقامت تک دائيں کروٹ پر ليٹنا مسنون ہے۔ دائيں جانب کی تخصيص ميں حکمت يہ ہے کہ انسان گہری نيند نہ سوجائے، کيونکہ دل انسان کے بائيں طرف ہوتا ہے لہذا اس حالت ميں انسان کا دل لٹکا ہوا رہتا ہے اور قرار وسکون نہيں حاصل ہوتا ہے ، اور جب بائيں کروٹ پر ليٹتا ہے تو وہ مکمل راحت اور سکون ميں ہوتا ہے اسی لئے گہری نيند سوجاتا ہے۔