عن أسماء بنت عُمَيْس رضي الله عنها قالت: قلت: يا رسول الله، إن فاطمة بنت أبي حُبَيْش اسْتُحِيضَتْ -مُنْذُ كذا وكذا- فلم تُصَل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «سُبحان الله، إن هذا من الشَّيطان لِتَجْلِسْ في مِرْكَنٍ، فإذا رأت صُفْرَة فوق الماء فلتَغْتَسِل للظهر والعصر غُسْلاً واحدا، وتغتسل للمغرب والعشاء غسلا واحدا، وتغتسل للفجر غسلا واحدا، وتتوضأ فيما بَيْنَ ذلك».
[صحيح] - [رواه أبو داود]
المزيــد ...
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فاطمہ بنت ابی حبیش کو اتنے دنوں سے استحاضہ کا خون آرہا ہے اور انہوں نے نماز نہیں پڑھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ ! یہ تو شیطان کی طرف سے ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ایک ٹب میں بیٹھ جائیں، جب پانی کے اوپر زردی دیکھیں تو ایک غسل ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے، اسی طرح ایک غسل مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے کر لیا کریں اور ان کے مابین وضوء کرتی رہیں۔‘‘
[صحیح] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (استحاضہ کے) اس خون کے بارے میں بتا رہی ہیں جو فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کو لاحق ہوا تھا اور اس نے ایک عرصے سے انہیں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا۔ ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ“ آپ ﷺ کا یہ فرمانا اظہارِ تعجب کے لیے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے نماز نہ پڑھنے پر تعجب کا اظہار فرمایا حالانکہ یہ خون حیض کا خون نہیں بلکہ شیطان کا ايک کچوکا ہے، جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے۔ ”انہیں چاہیے کہ وہ ایک ٹب میں بیٹھ جائیں، جب پانی کے اوپر زردی دیکھیں“ پھر نبی ﷺ نے انہیں حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کرنے کا طریقہ بتایا کہ وہ ایک ٹب (لگن) میں بیٹھ جائیں۔ اور وہ ایسا برتن ہوتا ہے جس میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں۔ جب اس پانی کے اوپر جس ميں وہ بیٹھی ہوں زردی ديکھيں تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ وہ اپنے حیض سے پاک ہو چکی ہیں کیونکہ حیض کا خون سیاہ اور گاڑھا ہوتا ہے، اس کے علاوہ ہر خون استحاضہ کا خون ہوتا ہے۔ ”تو ایک غسل ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے، اسی طرح ایک غسل مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے کر لیا کریں“ یعنی جب پانی پر زردی دیکھ لیں تو پھر دن رات میں تین دفعہ غسل کریں۔ ایک غسل ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے، ایک غسل مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے۔ ”اور ان کے مابین وضو کرتی رہا کریں“ یعنی ان (فرض) نمازوں کے مابين اگر کوئی اور نماز پڑھنا چاہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کریں جب کہ انہوں نے ایک ناقضِ وضو کو دیکھا ہے۔ اس صورت میں وہ غسل نہیں کریں گی کیونکہ غسل پنچ وقتہ فرض نمازوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ غسل مستحب ہے، واجب نھیں ہے، جیسا کہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔