عن أبي جعفر عبد الله بن جعفر رضي الله عنهما ، قال: أرْدَفَنِي رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم خلفه، وأَسَرَّ إليَّ حديثا لا أُحَدِّث به أحدًا من الناس، وكان أَحَبَّ ما اسْتَتَرَ به رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجته هَدَفٌ أو حائشُ نَخْل. يعني: حائط نخل.
فدخل حائطا لرجل من الأنصار، فإذا فيه جَمَل، فلما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم جَرْجَر وذَرَفَتْ عيناه، فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم فمسَح سَرَاته -أي: سنامه- وذِفْرَاه فسَكَن، فقال: «مَن رَبُّ هذا الجمل؟ لمن هذا الجمل؟». فجاء فَتًى من الأنصار، فقال: هذا لي يا رسول الله. قال: «أفلا تتقي الله في هذه البهيمة التي مَلَّكَك الله إياها؟ فإنه يَشْكُو إلي أنك تُجِيعه وتُدْئِبه».
[صحيح] - [رواه مسلم مختصرا، وأبو داود وأحمد بتمامه]
المزيــد ...
ابو جعفر عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک دن اپنے پیچھے سوار کر لیا، پھر مجھ سے چپکے سے ایک راز کی بات کہی، جو میں کسی سے بیان نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ کو قضاے حاجت کے لیے چھپنے کے لیے دو جگہیں بہت ہی پسند تھیں؛ یا تو کوئی اونچا مقام (ٹیلہ) یا کھجور کے درختوں کا جھنڈ یعنی کھجور کا باغ۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ کسی انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، تو سامنے ایک اونٹ نظر آیا۔ جب اس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، تو بلبلایا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نبی اکرم ﷺ اس کے پاس آئے اوراس کے کوہان اور کانوں کے پیچھے ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد پوچھا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری جوان آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم ان جانوروں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے نہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے؟ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا مارتے اور تھکاتے ہو“۔
[صحیح] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انھیں ایک رات اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا اور چپکے سے انھیں ایک بات کہی، جس کا یہ صحابی رسول ﷺ لوگوں کے سامنے ذکر کرنا نہیں چاہتے؛ کیوں کہ نبی ﷺ نے انھیں وہ بات رازداری سے بتائی تھی۔ اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کی عادت شریفہ کا بھی ذکر کیا کہ جب آپ ﷺ قضاے حاجت کا ارادہ فرماتے، تو آپ کو یہ بات پسند تھی کہ یا تو کسی اونچی و بلند چیز کی آڑ میں یا کسی ایسے باغ میں چھپ جائیں، جہاں کھجور کے گھنے درخت ہوں؛ تاکہ آپ پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اور یہ باغ ایسی جگہ ہے، جہاں اونچی اونچی فصلیں ہوتی ہیں؛ لیکن لوگوں کے بیٹھنے کے لیے موزوں نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺ ایک انصاری شخص کے باغ میں تشریف لے گئے، تو وہاں ایک اونٹ کو دیکھا، جب رسول اللہ ﷺ پر اونٹ کی نظر پڑی تو وہ رونے لگا۔ آپ نے اس کی کوہان اور کانوں کے پیچھے سہلایا۔ اس کے بعد اونٹ کے مالک کے تعلق سے دریافت فرمایا۔ ایک انصاری نوجوان نے آکر بتایا کہ وہ اس کا مالک ہے۔ تب آپ ﷺ نے انھیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تمھیں اس اللہ عز وجل کا کوئی ڈر و خوف نہیں، جس نے تمھیں اس اونٹ کا مالک بنایا ہے؟ کیوں کہ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکے رکھنے کے ساتھ ساتھ تھکا دینے کی حد تک کام لیتے ہو۔