عن أم عَطيَّة نُسَيْبة الأنصارية رضي الله عنها قالت: «أَمَرَنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نُخْرِج في العيدين الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، وأَمَر الحُيَّض أن يَعْتَزِلْنَ مُصلّى المسلمين».
وفي لفظ: «كنا نُؤمر أن نَخْرُجَ يوم العيد، حتى نُخْرِجَ الْبِكْرَ من خِدْرِهَا، حَتَّى تخرجَ الْحُيَّضُ، فَيُكَبِّرْنَ بتكبيرهم ويدعون بدعائهم، يرجون بَرَكَة ذلك اليوم وطُهْرَتَهُ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ام عطیہ نسیبہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں: ”رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین (کی نماز) کے لیے بالغ اور پردہ نشین عورتوں کو لے کر جائیں اور حکم دیا کہ حیض والی عورتیں مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے الگ رہیں“۔
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: ”ہمیں حکم تھا کہ ہم سب عید کے دن عیدگاہ میں آئیں، یہاں تک کہ ہم کنواری لڑکیوں کو بھی ساتھ لے جاتے اور حیض والی عورتوں کو بھی۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں اور اس دن کی برکت اور پاکیزگی کو پانے کی امیدوار رہتیں“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ان فضیلت کے حامل دنوں میں سے ہیں، جن میں اسلامی شعار ظاہر ہوتا ہے اور مسلمانوں کے ایک جگہ جمع ہونے اور مل مل کر کھڑے ہونے سے ان کے بھائی چارے کی جھلک ملتی ہے۔ ہر علاقے والے اپنے اتحاد، دلوں کی ہم آہنگی اور اسلام کی نصرت، اللہ کے دین کی سربلندی، اس کے ذکر کو قائم کرنے اور اس کے شعائر کے اظہار پر اپنی یک جہتی اور اتفاق کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک ہی میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ اسی لیے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ سبھی عورتیں یہاں تک کہ اپنے گھروں میں بیٹھی پردہ نشیں لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی عیدگاہ کی طرف نکلیں۔ البتہ وہ نمازیوں سے دور کسی جانب رہیں، تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں، اس موقع کی خیر و برکت سے بہرہ ور ہو سکیں، اللہ کی رحمت اور رضامندی حاصل کر سکیں اور تاکہ اللہ کی رحمت اور قبولیت ان کے زیادہ قریب رہے۔ عیدین کی نماز فرض کفایہ ہے۔