عن فاطمة بنت قيس- رضي الله عنها- «أن أبا عمرو بن حفص طلقها البَتَّةَ، وهو غائب (وفي رواية: "طلقها ثلاثا")، فأرسل إليها وكيله بشعير، فسخطته. فقال: والله ما لك علينا من شيء. فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: ليس لك عليه نفقة (وفي لفظ: "ولا سكنى") فأمرها أن تَعْتَدَّ في بيت أم شريك؛ ثم قال: تلك امرأة يَغْشَاهَا أصحابي؛ اعتدي عند ابن أم مكتوم. فإنه رجل أعمى تضعين ثيابك، فإذا حَلَلْتِ فآذِنِيني.
قالت: فلما حللت ذكرت له: أن معاوية بن أبي سفيان وأبا جهم خطباني. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أما أبو جهم: فلا يَضَعُ عصاه عن عاتقه. وأما معاوية: فصعلوك لا مال له. انكحي أسامة بن زيد. فكرهته ثم قال: انكحي أسامة بن زيد. فنكحته، فجعل الله فيه خيرا، واغْتَبَطْتُ به».
[صحيح] - [رواه مسلم.
تنبيه
روى البخاري الحديث مختصرا في"صحيحه" يقول الشيخ أحمد شاكر في" تحقيقه على إحكام الأحكام"(ص/591) برقم(2):" هذا الحديث لم يخرجه البخاري في صحيحه هكذا، بل ترجم له أشياء من قصة فاطمة هذه بطريق الإشارة إليها (5323)..." أ هـ]
المزيــد ...
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو عمرو بن حفص نے انہیں طلاق بتّہ ( تیسری طلاق) دے دی، اور وہ خود غیر حاضر تھے، (اور ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے تین طلاقیں دے دیں) ان کے وکیل نے ان کی طرف سے کچھ جَو بھیجے، تو وہ اس پر ناراض ہوئیں، اس (وکیل) نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور یہ بات آپ کو بتائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اب تمہارا خرچ اس کے ذمے نہیں“۔ اور آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر میں عدت گزاریں، پھر فرمایا: ”اس عورت کے پاس میرے صحابہ آتے جاتے ہیں، تم ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں عدت گزار لو، وہ نابینا آدمی ہیں، تم اپنے کپڑے بھی اتار سکتی ہو۔ تم جب عدت گزار لو تو مجھے بتانا۔“ جب میں (عدت سے) فارغ ہوئی، تو میں نے آپ ﷺ سے بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ عنہم دونوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابوجہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتے، اور رہے معاویہ تو وہ بہت فقیر ہیں، اس کے پاس کوئی مال نہیں، تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو“۔ میں نے اسے ناپسند کیا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ”اسامہ سے نکاح کرلو“۔ تو میں نے ان سے نکاح کرلیا، اللہ نے اس میں خیر ڈال دی اور اس کی وجہ سے مجھ پر رشک کیا جانے لگا۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
ابو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی فاطمۃ بنت قیسرضی اللہ عنہا کو طلاقِ بتّہ دی، یہ ان کی طرف سے اپنی بیوی کو آخری طلاق تھی۔ اور مبتوتہ (جس عورت کو شوہر نے طلاقِ بتّۃ دی ہو) کے لیے شوہر پر نفقہ واجب نہیں ہوتا، پھر بھی ابوعمرو رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے جَو بھیجا، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ عدت کے دوران ابو عمرو پر ان کا نفقہ واجب ہے، اس لیے انہوں نے اس جَو کو کم سمجھا اور ناپسند کیا۔ وکیل نے قسم کھائی ہم پر آپ کا کوئی حق لازم نہیں ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی تو آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ ابو عمرو پر تمہارا نہ تو نفقہ (خرچ) ہے اور نہ ہی رہائش کی ذمہ داری ہے، اور انہیں حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر میں عدت گزاریں۔ جب نبی ﷺ کو یہ بات یاد آئی کہ ام شریک کے یہاں تو صحابہ کا آنا جانا لگا رہتا ہے تو انہیں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے یہاں عدت گزارنے کو کہا کیوں کہ وہ نابینا ہیں، ان کا اپنے کپڑے نکال رکھنے کو نہیں دیکھیں گے، اور انہیں یہ حکم دیا کہ عدت کے ختم ہوجانے پر آپ ﷺ کو خبر دیں۔ جب انھوں نے اپنی عدت گزار لی تو معاویہ اور اور ابو جہم رضی اللہ عنہما نے انھیں نکاح کا پیغام بھیجا چنانچہ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق مشورہ کیا۔ چوں کہ جس سے مشورہ لیا جائے اُسے مشورہ لینے کے حق میں خیر خواہ ہونا چاہیے اس لیے آپ ﷺ نے دونوں میں کسی سے بھی شادی کرنے کا مشورہ نہیں دیا اس لیے ابوجہم عورتوں پر بہت سخت گیر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ فقیر تھے اُن کے پاس مال نہیں تھا، اس لیے آپ ﷺ نے انھیں اسامہ سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا جسے پہلی دفعہ انھوں نے ناپسند کیا، اس لیے کہ اسامہ ایک آزاد کردہ غلام تھے، تاہم انھوں نے نبی ﷺ کا حکم مانتے ہوئے اس رشتے کو بالآخر منظور کر لیا، جس کی برکت کے نتیجہ میں (لوگ) ان پر رشک کرنے لگے، اور اللہ تعالی نے ان (کے نکاح) میں خیرِ کثیر رکھ دیا۔