عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ، وأن يبيع حاضرٌ لِبَادٍ، قال: فقلت لابن عباس: ما قوله حاضرٌ لِبَادٍ؟ قال: لا يكون له سِمْسَارًا».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تجارتی قافلوں سے آگے جا کر ملنے اور شہری کا دیہاتی کی طرف سے بیع کرنے سے منع فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ شہری کا دیہاتی کی طرف سے بیع کرنے سے آپ ﷺ کی کیا مراد ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا دلال نہ بنے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اس حدیث میں نبی ﷺ حرام بیع کی کچھ اقسام سے منع فرما رہے ہیں۔ کیوںکہ اس میں بائع و مشتری یا ان کے علاوہ کسی اور کو نقصان ہوتا ہے۔ اول: اشیا خوردنی اور جانور وغیرہ پر مشتمل سامانِ تجارت لے کر (بیرون شہر سے) آنے والے لوگوں سے جا ملنا ممنوع ہے؛ بایں طور کہ آدمی ان کے منڈی تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کے پاس جا کر ان سے سامان تجارت خرید لے۔ اس میں امکان ہے کہ ان کی قیمتوں سے عدم واقفیت کی بنا پر وہ ان سے دھوکہ کرلے اور انھیں ان کے باقی رزق سے محروم کر دے، جس کے لیے انھوں نے اتنی مشقت اٹھائی، صحراؤں اور جنگلات کو عبور کیا اور خطرات برداشت کیے۔ یوں وہ ان لوگوں کے لیے لقمۂ تر بن جائے، جنھوں نے اس کے لیے کچھ بھی کاوش نہیں کی۔ دوم: کوئی دیہاتی یا کسی بستی کا باشندہ شہر میں اپنا سامان تجارت لے کر آئے، تاکہ اسے اس دن کی قیمت پر یا پھر کسی ایسے بھاؤ پر بیچ کر واپس لوٹ جائے، جس کی اسے ضرورت ہو یا جو اس کے لیے کافی ہو۔ ایسے میں اس کے پاس کوئی شہری شخص آ کر کہے کہ اس سامان کو میرے پاس رکھ دو، تا کہ اسے میں تھوڑا تھوڑا کر کے زیادہ دام پر بیچ دوں۔ ایسا کرنے سےشہر کے باشندوں کو نقصان ہوتا ہے۔ چنانچہ شریعت نے شہر میں آنے والے اجنبی فروخت کنندہ اور شہر کے باشندوں دونوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے۔