عن رافع بن سنان أنه أسلَمَ وأَبَتْ امرأتُه أن تُسْلِم، فأتت النبي صلى الله عليه وسلم ، فقالت: ابنتي وهي فَطِيمٌ أو شَبَهُهُ، وقال رافع: ابنتي، قال له النبي صلى الله عليه وسلم : «اقعد ناحية»، وقال لها: «اقعدي ناحية»، قال: «وأقعد الصَبِيَّةَ بينهما»، ثم قال «ادعواها»، فمَالت الصبية إلى أمها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : «اللهم اهدها»، فمالت الصبية إلى أَبيها، فأخذها.
[صحيح] - [رواه أبو داود والنسائي وأحمد]
المزيــد ...
رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ( جس کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہو گئی )۔ ان کی بیوی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی "میری بیٹی نے ابھی ابھی دودھ چھوڑا ہے یا چھوڑنے کے قریب ہے" ۔ جب کہ رافع رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ "بیٹی میری ہے" ۔ نبی کریم ﷺ نے رافع سے کہا " ایک طرف بیٹھ جاؤ " اور اس عورت سے کہا کہ "تم دوسری طرف بیٹھ جاؤ"۔ رافع کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے بچی کو ان دونوں کے درمیان بٹھا دیا اور پھر ان سے فرمایا "تم دونوں اسے بلاؤ" ۔ ( انہوں نے بلایا ) تو بچی اپنی ماں کی طرف جھک گئی۔ نبی ﷺ نے دعا فرمائی کہ "اے اﷲ! اس بچی کو ہدایت دے" ۔ اس پر بچی اپنے باپ کی طرف جھک گئی اور انہوں نے اسے لے لیا۔
[صحیح] - [اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ نبی ﷺ کے پاس والدین کے مابین بچے کی حضانہ (پرورش سے متعلق نزاع) کا مسئلہ آیا جن میں سے ایک یعنی باپ مسلمان تھا ور دوسرا یعنی ماں کافر تھی۔ اپنی بیٹی کے بارے میں نبی ﷺ کے پاس ان دونوں کے مابین نزاع پیدا ہو گیا۔ نبی ﷺ نے بچی کو ماں باپ کے مابین اختیار دیا تو اس نے ماں کو اختیار کرنا چاہا جو کہ کافر تھی۔ اس پر نبی ﷺ نے دعا فرمائی کہ "اے اللہ! اس بچی کو ہدایت دے"۔ یعنی صحیح کی طرف اس کی راہنمائی فرما۔اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی دعا کو قبول فرما لیا اور اس بچی نے مسلمان باپ کو چن لیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا کافر کی نگہداشت اور پرورش میں رہنا اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے برخلاف ہے۔ کیونکہ پرورش میں دیے جانے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بچے کی تربیت ہو اور ہر قسم کے ضرر کو اس سے دور رکھا جائے۔ جب کہ سب سے بڑی تربیت اس کے دین کی حفاظت ہے اور اس کا سب سے بڑا دفاع یہ ہے کہ اس سے کفر کو دور رکھا جائے۔ جب بچہ کافر کی پرورش میں ہوگا تو وہ اسے اس کے دین سے پھیر دے گا اور اسے کفر کی تعلیم و تربیت دے کر اسلام سے نکال دے گا جو کہ سب سے بڑا ضرر ہے ۔ پرورش تو ہوتی ہی بچے کی حفاظت کے لیے ہے چنانچہ اس کی کوئی بھی ایسی صورت جائز نہیں جس میں بچے کی ہلاکت ہو یا اس کے دین کا ضیا ع ہو۔