عن أبي ميمونة سلمى مولى من أهل المدينة رجلُ صِدق، قال: بينما أنا جالس مع أبي هريرة، جاءته امرأة فارِسَيّة معها ابنٌ لها فادَّعَيَاه، وقد طلَّقَها زوجُها، فقالت: يا أبا هريرة، ورَطَنَت له بالفارسية، زوجي يريد أن يذهب بابني، فقال أبو هريرة: اسْتَهِما عليه ورَطَنَ لها بذلك، فجاء زوجها، فقال: مَن يُحاقُّني في ولدي، فقال أبو هريرة: اللهم إني لا أقول هذا إلا أني سمعت امرأةً جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأنا قاعد عنده، فقالت: يا رسول الله، إن زوجي يريد أن يذهب بابني، وقد سقاني من بِئر أبي عِنَبَة، وقد نفعني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اسْتَهِما عليه، فقال زوجها: من يُحَاقُّنِي في ولدي؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم : «هذا أبوك، وهذه أمك فخُذْ بيدِ أيِّهما شِئت»، فأخذ بيد أمِّه، فانطلقت به.
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وأحمد]
المزيــد ...
ابو میمونہ سلمی جو مدینہ کے آزاد کردہ غلاموں میں سے ہیں، سچے آدمی ہیں کہتے ہیں کہ دریں اثناء کہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کےساتھ بیٹھا ہوا تھا فارس کی رہنے والی ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا ، اور اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی، اس عورت نے فارسی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے باتیں کیں وہ کہہ رہی تھی ، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میرا شوہر میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قرعہ ڈالو۔ اس کا شوہر آیا ، اور کہنے لگا میرے بیٹے کے بارے میں کون جھگڑتا ہے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا اللہ یہ میں نہیں کہتا مگر میں رسول اللہ کے پاس بیٹھا تھا تو ایک عورت آپ کے پاس آئی کہا اے اللہ کے رسول میرا شوہر میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے حالانکہ وہ مجھ کو نفع دیتا ہے، ابو عنبہ کے کنویں سے مجھے پانی پلاتا ہے، آپ نے فرمایا کہ قرعہ ڈالو، اس کے شوہر نے کہا کہ کون میرے بیٹے کے بارے میں جھگڑتا ہے؟ تو رسول نے فرمایا ’’یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے، ان میں سے جس کا ہاتھ چاہے پکڑ لے‘‘ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا، چنانچہ اسے لے کر وہ چلی گئی۔
[صحیح] - [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث میں بچے کے مفادات کا خیال کرنے کا بیان ہے اور ایسا اس وجہ سے کہ اس عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی، اور اس کا بیٹا اس کے ساتھ رہا، اس عورت کی حاجت کے با وجود اس کا شوہر اس کے بیٹے کو لے جانا چاہتا تھا اور اس کی پرورش اور دیکھ بھال میں رکاوٹ بن رہا تھا، حالانکہ و ہ بچہ بھی باپ کی عدم قدرت کی بنا پر اس ماں کی حفاظت ونگرانی کا ضرورت مند تھا، تو اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دیا، جو نبی ﷺ سے سنا تھا، اسی جیسی عورت کے حق کے بارے میں ، کیونکہ پرورش ایسی ذمہ داری ہے جس کے ذریعہ بچے کی پرورش اور اس کے مفادات کا خیال کیا جاتا ہے، بچہ سنِ تمیز سے پہلے اپنی ماں کے پاس رہے گا، جب تک کہ اس کی ماں شادی نہ کر لے، جب سن تمیز کو پہنچ جائے اور اپنے بعض معاملات میں خود مختار ہو جائے، یعنی بہت سارے معاملات میں خود مختار ہو جائے، اس وقت ماں اور باپ اس کی پرورش میں برابر کے حق دار ہوں گے، ایسی صورت میں اس بچے کو اختیار دیا جائے گا، ان میں سے جس کسی کے پاس جانا چاہے وہ اسے لے گا۔