+ -

عن ابن شهاب، أن سهل بن سعد الساعدي أخبره: أن عُوَيْمِراً العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الأنصاري، فقال له: يا عاصم، أرأيت رجلاً وجد مع امرأته رجلاً، أيقتله فتقتلونه، أم كيف يفعل؟ سل لي يا عاصم عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسأل عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلما رجع عاصم إلى أهله جاءه عويمر، فقال: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فقال عاصم لعويمر: لم تأتني بخير، قد كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسألة التي سألته عنها، فقال عويمر: والله لا أنتهي حتى أسأله عنها، فأقبل عويمر حتى جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال: يا رسول الله، أرأيت رجلاً وجد مع امرأته رجلًا، أيقتله فتقتلونه، أم كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «قد أُنزِل فيك وفي صاحبتك، فاذهب فَأْتِ بها» قال سهل: فَتَلاعَنا وأنا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلما فَرَغَا مِن تَلاعُنِهِما، قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إنْ أَمْسَكْتُها، فطلقها ثلاثا، قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال ابن شهاب: فكانت سُنَّة المُتلاعِنَيْن.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

ابن شہاب سے روایت ہے کہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی انصاری سے آ کر کہنے لگے: اے عاصم ! ذرا بتاؤ- اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ میرے لیے رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم پر رسول اللہ ﷺ کی بات گراں گزری، جب عاصم گھر لوٹے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس آکر پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا فرمایا؟ تو عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے تم سے کوئی بھلائی نہیں ملی جس مسئلہ کے بارے میں، میں نے سوال کیا اسے رسول ﷺ نے ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم میں نبی ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھ کر رہوں گا، وہ سیدھے آپ ﷺ کے پاس پہنچ گئے، اس وقت آپ ﷺ لوگوں کے بیچ تشریف فرما تھے، عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ (اجنبی) آدمی کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے، پھر آپ لوگ اس کے بدلے میں اسے قتل کر دیں گے، یا وہ کیا کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق قرآن نازل ہوا ہے لہٰذا اسے لے کر آؤ“۔ سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ان دونوں نے لعان کیا، اس وقت میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، جب وہ (لعان سے) فارغ ہو گئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (گویا) میں نے جھوٹ کہا ہے، چنانچہ عویمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے دی۔ ابن شہاب (زہری) کہتے ہیں: تو یہی (ان دونوں کا معاملہ) لعان کرنے والوں کا طریقہ بن گیا۔
[صحیح] - [متفق علیہ]

شرح

حدیث یہ فائدہ دیتی ہے کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ مسئلہ دریافت کرنے آئے کہ کوئی اپنی بیوی کے پاس کسی اجنبی آدمی کو دیکھے تو کیا کرے، تو نبی ﷺ نے ان جیسے مسائل کو ناپسند فرمایا کیونکہ اس میں اپنے آپ کو کسی ناپسندیدہ شے میں مبتلا کرنا ہے، تو انہوں نے اس سوال پر اصرار کیا، اور سوال کیا گیا مسئلہ وقوع پذیر ہو چکا تھا، پھر وہ نبی ﷺ کے پاس اس حالت کا حکم دریافت کرنے کے لیے آئے، تو نبی ﷺ نے بتایا کہ ان کے اور ان کی بیوی کے بارے میں اللہ نے قرآن کی ایک آیت نازل فرمائی ہے جس میں اس کے متعلق حکم موجود ہے، ان دونوں نےلعان کیا، پھر عویمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ لعان نے بیوی کو حرام نہیں کیا اور آگے بڑھ کر تین طلاق دے دی، اس طرح یہ اسلام میں پہلا لعان تھا۔

ترجمہ: انگریزی زبان انڈونیشیائی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔