عن أبي هريرة، أو أبي سعيد الخدري رضي الله عنهما -شك الراوي- قال: لما كان غزوة تبوك، أصاب الناس مجاعة، فقالوا: يا رسول الله، لو أَذِنْتَ لنا فنحرنا نوَاضِحَنَا فأكلنَا وَادَّهَنَّا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «افعلوا» فجاء عمر رضي الله عنه فقال: يا رسول الله، إن فعلت قَلَّ الظَّهْرُ، ولكن ادْعُهُمْ بفضل أَزْوَادِهِمْ، ثمَ ادْعُ الله لهم عليها بالبركة، لعل الله أن يجعل في ذلك البركة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «نعم» فدعا بنِطَعٍ فبسطه، ثم دعا بفضل أَزْوَادِهِمْ، فجعل الرجل يجيء بكف ذُرَةٍ، ويجيء بكف تمر، ويجيء الآخر بِكَسْرَةٍ، حتى اجتمع على النِّطَعِ من ذلك شيء يسير، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبركة، ثم قال: «خذوا في أوعيتكم» فأخذوا في أوعيتهم حتى ما تركوا في العسكر وعاء إلا مَلَئُوهُ وأكلوا حتى شبعوا وفضل فضْلَةً، فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : «أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فَيُحْجَبَ عن الجنة».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
ابوہریرہ یا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے( راوی کو شک ہے) کہ جب غزوہ تبوک کا وقت آیا تواس دن لوگوں کو بہت سخت بھوک لگی،انہوں نے آپ ﷺ سے کہا: یارسول اللہ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے سواری کے اونٹ ذبح کرلیں تاکہ ان کا گوشت کھائیں اور ان کے روغن سے فائدہ اٹھائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا:’کر لو‘۔عمر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ، اگر آپ نے یہ کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی،اس کے بجائے آپ ان کے بچے ہوئے زاد راہ منگوائیں اور اس پر اللہ سے برکت کی دعا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’یہ ٹھیک ہے‘۔ چنانچہ آپ نے ایک کھال کی چٹائی منگوائی اور اسے بچھا دیا پھر ان لوگوں جو بچا کھچا کھانے کا سامان تھا وہ منگوایا۔ کوئی شخص مٹھی بھر مکئی، کوئی مٹھی بھر کھجور اورکوئی (روٹی کا) ٹکڑا لے آیا۔ یہاں تک کہ کھال پرچھوٹی سی ڈھیر لگ گئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا کی اور فرمایا: اسے اپنے برتنوں میں ڈال لو۔ چنانچہ لوگوں نے اپنے برتن بھر لیے۔ لشکر میں کوئی برتن نہیں بچا جسے انھوں نے نہ بھرا ہو۔ پھرانھوں نے کھایا اور سیر ہو گئے لیکن کھانا پھر بھی بچ رہا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمیں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو بندہ ان دونوں شہادتوں پر یقین رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا اسے جنت سے ہرگز نہ روکا جائے گا۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
غزوہ تبوک کے موقع پر لوگ فاقے کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کر لیں اور ان کا گوشت کھائیں اور ان کی چربیوں سے روغن حاصل کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ ایسا کر لو۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ حاضرِ خدمت ہوئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! اگر آپ ﷺ نے ایسا کرنے کی اجازت دے دی تو سواری کے جانور کم ہو جائیں گے اور ان کی قلت ہو جائے گی۔ آپ لوگوں کو کہیں کہ وہ اپنا بچا ہوا کھانا لے کر آئیں۔ آپ اس پر برکت کی دعا کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس میں خیر ڈال دے اور کم میں برکت دے دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے چمڑے کی ایک چٹائی (دسترخوان) منگوا کر اسے بچھا دیا اور پھر لوگوں کو ان کا بچا ہوا کھانے کا سامان لانے کو کہا۔ کوئی شخص مٹھی بھر مکئی لے کر آ رہا تھا تو کوئی کھجور اور کوئی روٹی کا ٹکڑا یہاں تک کہ اس چٹائی پر ان چیزوں کی ایک چھوٹی سی ڈھیر لگ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی اور پھر فرمایا: اسے اپنے برتنوں میں ڈال لو۔ چنانچہ لوگ اسے لینے لگ گئے یہاں تک کہ انہوں نے لشکر میں کوئی ایسا برتن نہ چھوڑا جسے بھرا نہ ہو۔ انہوں نے سیر ہو کر کھایا اور یہ پھر بھی بچ گیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ بنا شک کیے ان دو باتوں کی گواہی دے کر موت کے بعد اللہ سےملے گا اسے جنت میں جانے سے نہیں روکا جائے گا بلکہ وہ ضرور اس میں جائے گا، یا تو شروع ہی سے وہ نجات پانے والوں کے ساتھ جنت میں جائے گا یا پھر دوزخ سے نکالے جانے کے بعد۔