+ -

عن حَفْصَة زَوْج النَّبِي رضي الله عنها قالت: «يَا رَسُولَ اللَّه، مَا شَأن النَّاس حَلُّوا مِنَ العُمرَة، وَلَم تَحِلَّ أنت مِنْ عُمْرَتِكَ؟ فَقَال: إنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي، وَقَلَّدتُ هَدْيِي، فَلا أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

زوجہ رسول ﷺ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: يا رسول الله! لوگوں کو کیا ہوا کہ انھوں نے احرام کھول دیا ہے، حالاں کہ آپ نے ابھی تک اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولاہے؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں نے اپنے سر کے بالوں کو گوندھ رکھا ہے اور اپنی ہدی (قربانی کے جانور) کو قلادہ پہنا رکھا ہے۔ اس لیے میں اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا (احرام نہیں کھول سکتا)، جب تک اپنی ہدی نحر نہ کر لوں۔
[صحیح] - [متفق علیہ]

شرح

نبی ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرہ اور حج کے لیے احرام باندھا، ہدی ساتھ لیا اورسر کے بالوں کو منتشر ہونے سے روکنے کے لیے چپکا لیا؛ کیوں کہ آپ کا احرام لمبا ہونا تھا۔ آپ ﷺ کے کچھ صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ احرام باندھ لیا۔ ان میں سے بعض نے عمرہ کے لیے احرام باندھا؛ اس نیت کے ساتھ کہ وہ اسے کھول کر حج کے لیے نیا احرام باندھیں گے۔ اکثر صحابہ اپنے ساتھ ہدی کا جانور نہیں لائے تھے۔ تاہم بعض ہدی کا جانور ہم راہ لائے تھے۔ جب وہ مکہ پہنچے اور طواف و سعی کرچکے، تو آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جو ہدی کے جانورساتھ نہیں لائے تھے اور حج افراد اور حج قران کی نیت سے آئے تھے، انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے حج کو فسخ کرتے ہوئے اسے عمرہ بنا لیں اور احرام کھول لیں۔ تاہم خود نبی کریم ﷺ اور وہ لوگ جو اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے تھے، انھوں نے اپنا احرام باقی رکھا اور حلال نہ ہوئے۔ اس پر آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ لوگوں نے کیوں احرام کھول دیا ہے، حالاں کہ آپ نے احرام نہیں کھولا؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: کیوں کہ میں نے اپنے سر کو گوندھ رکھا ہے (یعنی کسی چپکانے والی شے سے بالوں کو جما رکھا ہے) اور اپنی ہدی کے جانور کو بھی قلادہ پہنا کر ساتھ لایا ہوں، اس وجہ سے میں احرام نہیں کھول سکتا، تاوقتے کہ ہدی اپنے مقام پر پہنچ جائے۔ یعنی حج پورا ہونے کا دن جو کہ یوم النحر ہے آ جائے۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہاؤسا پرتگالی
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔