عن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فتوجه نحو صدقته فدخل، فاستقبل القبلة فَخَرَّ ساجداً، فأطال السجود حتى ظننت أن الله عز وجل قبض نفسه فيها، فَدَنَوْتُ منه، ثم جلستُ فرفع رأسه، فقال: من هذا؟ قلت عبد الرحمن، قال: ما شأنك؟ قلت: يا رسول الله سجدت سجدة خشيت أن يكون الله عز وجل قد قَبَضَ نَفْسَكَ فيها، فقال: إن جبريل -عليه السلام-، أتاني فَبَشَّرَنِي ، فقال: إن الله عز وجل يقول: من صلى عليك صَلَّيْتُ عليه، ومن سلم عليك سَلَّمْتُ عليه، فسجدت لله عز وجل شكراً.
[حسن] - [رواه أحمد]
المزيــد ...
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ گھر سے نکلے،اور صدقہ کے لیے متوجہ ہوئے،پھر (مسجد میں) داخل ہوئے، اور قبلہ رو ہو ئے اور سجدہ میں چلے گئے۔ آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے گمان ہوا کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح ہی قبض نہ کر لی ہو۔ میں آپ کے قریب ہو کر بیٹھ گیا تو آپ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا کہ یہ کون ہے؟ میں نے کہا عبدالرحمٰن! آپ نے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ کے رسول (ﷺ) آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے ڈر پیدا ہو گیا کہ کہیں اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی گئی ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے یہ خوشخبری دی کہ: اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جو بھی آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر رحمت بھیجوں گا اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔ تو میں نے اللہ کے لیے شکرانے کا سجدہ کیا۔
[حَسَنْ] - [اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث شریف میں نعمت کے حصول پر یا کوئی خوش کن یا اچھی خبر ملنے پر سجدۂ شکر کی مشروعیت کو بیان کیا جا رہا ہے جیسا کہ رسو ل اللہﷺ نماز میں تھے اور جبریل علیہ السلام ان کے پاس تشریف لائے اور یہ خوشخبری دی کہ آپ کی امت میں سے جو بھی آپ پر درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت بھیجے گا اور یہی حال اس شخص کے لیے ہے جو آپ پر سلام بھیجے گا۔ اور یہ بھی سنت ہے کہ سجدۂ شکر لمبا کیا جائے جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے کیا تھا کہ صحابہ کو یہ شک پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں آپ فوت ہی نہ ہو گیے ہوں۔