عن أبي سفيان صخر بن حرب رضي الله عنه قال: قال هِرَقل: فماذا يَأمُرُكُم -يعني: النبي صلى الله عليه وسلم- قال أبو سفيان: قلت: يقول: «اعبدُوا الله وَحدَه لاَ تُشرِكُوا بِهِ شَيئًا، وَاترُكُوا ما يَقُول آبَاؤُكُم، ويَأمُرُنَا بِالصَّلاَة، والصِّدق، والعَفَاف، والصِّلَة».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ہرقل نے پوچھا: وہ شخص یعنی نبی ﷺ تمھیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا: وہ کہتا ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تمھارے آباو اجداد جو کچھ کہتے ہیں، اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتاہے اور سچائی اور پاک دامنی اپنانے اور صلہ رحمی کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
یہ ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کی ہرقل کے ساتھ ہونے والی مشہور گفتگو ہے۔ ابو سفیان اس وقت مشرک تھے۔ کیوں کہ انھوں نے بہت دیر سے صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام قبول کیا تھا۔ ابو سفیان قریش کے کچھ لوگوں کے ہم راہ شام میں ہرقل کے پاس آئے۔ ہرقل اس وقت عیسائیوں کا بادشاہ تھا۔ اس نے توریت اور انجیل پڑھ رکھی تھی اور سابقہ کتابوں کا علم رکھتا تھا۔ وہ ایک زیرک بادشاہ تھا۔ اس نے جب حجاز سے آنے والے ابو سفیان اور ان کے ہم راہیوں کے بارے میں سنا، تو انھیں بلا بھیجا اور ان سے نبی ﷺ کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ ﷺ کا نسب کیا ہے، آپ ﷺ کے صحابہ کیسے ہیں، وہ آپ ﷺ کی کیسے توقیر کرتے ہیں اور آپ ﷺ کے ساتھ کس حد تک وفادار ہیں؟؟ وہ جو بات پوچھتا، یہ لوگ اسے اس کے بارے میں بتاتے، یہاں تک کہ وہ جان گیا کہ آپ ﷺ وہی نبی ہیں، جس کی خبر سابقہ کتابوں نے دی ہے۔ تاہم حکمتِ الٰہی کے پیش نظر وہ اپنی بادشاہت کی لالچ میں اسلام قبول نہ کیا۔ العیاذ باللہ۔ ابو سفیان سے اس نے جوسوالات کیے، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نبی ﷺ انھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ ابو سفیان نے اسے بتایا کہ آپ ﷺ انھیں حکم دیتے ہیں کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا کسی بھی فرشتے، رسول، درخت، پتھر اور سورج و چاند وغیرہ کی عبادت نہ کریں۔ عبادت کی سزاوار صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ تمام انبیا نے اسی بات کی دعوت دی۔ چنانچہ نبی ﷺ بھی وہی پیغام لے کر آئے، جوآپ ﷺ سے پہلے سابقہ انبیا لے کر آئے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ کی ہونی چاہیے اور یہ کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور وہ (یعنی نبی ﷺ )کہتے ہیں کہ: "جس دین پر تمھارے آباو اجداد تھے، اسے چھوڑ دو"۔ یہ حق کا برملا اظہار ہے۔ ان کے آباو اجداد جو بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، نبی ﷺ نے اسے چھوڑ دینے کا حکم فرمایا۔ تاہم ان کے آباو اجداد میں جو اعلی اخلاقی خوبیاں تھیں، ان کے ترک کر نے کا آپ ﷺ نے حکم نہیں دیا۔ ابو سفیان نے کہا: "اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے"۔ نماز بندے اور اس کے رب کے مابین تعلق کا نام ہے۔ ارکان اسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد یہ سب سے اہم رکن ہے۔ یہی مؤمن و کافر کے مابین مابہ الامتیاز ہے۔ یہی وہ معاہدہ ہے، جو ہمارے اور مشرکین و کفار کے مابین ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "ہمارے اور ان کے مابین جو معاہدہ ہے، وہ نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے یقینا کفر کیا"۔ ابو سفیان نے کہا: "وہ ہمیں سچائی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں"۔ نبی ﷺ اپنی امت کو سچائی کا حکم دیتے۔ یہ ایسے ہی جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ" (التوبة: 119) ترجمہ: اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ سچائی ایک اعلی اخلاقی صفت ہے، جس کی دو اقسام ہیں: اللہ کے ساتھ سچائی اور اللہ کے بندوں کے ساتھ سچائی۔ اور دونوں ہی اعلی اخلاقی صفات میں سے ہیں۔ ابو سفیان نے کہا: "اور آپ ﷺ ہمیں پاک دامنی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں"۔ "عفاف" کے معنی ہیں: پاک دامنی۔ عفت (پاک دامنی) کی دو اقسام ہیں: شر م گاہ کی شہوت سے عفت اور پیٹ کی شہوت سے عفت۔ پہلی قسم کی عفت سے مراد یہ ہے کہ انسان زنا اور اس کے وسائل و ذرائع سے دور رہے، جو اس کے لیے حرام ہیں۔ دوسری قسم کی عفت، پیٹ کی شہوت سے عفت ہے۔ یعنی لوگوں کے پاس جو کچھ (سامان دنیا ) ہے، اس سے عفت اختیار کرنا اور ان سے مانگنے سے پرہیز کرنا، بایں طور کہ وہ کسی شخص سے کوئی شے نہ مانگے۔ کیوں کہ مانگنا باعث ذلت ہے اور مانگنے والے کا ہاتھ کم تر اور نچلا ہوتا ہے، جب کہ دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ چنانچہ سوائے اس شےکے جس کے بغیر چارہ ہی نہ ہو، آپ کے لیے کسی سے مانگنا جائز نہیں۔ پانچویں شے جس کے بارے میں ابو سفیان نے بتایا وہ صلہ رحمی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے جن لوگوں سے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے، انسان ان سے صلہ رحمی کرے اور اس سلسلے میں ان سے اپنی رشتے داری کے درجات کو ملحوظ رکھے۔ رشتے داروں میں سب سے پہلے والدین آتے ہیں، جن کے ساتھ اچھا تعلق رکھنا نیکی بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ رشتے دار جتنا قریبی ہو، اسی قدر اس سے صلہ رحمی ہو گی۔ چنانچہ چچا کی بہ نسبت بھائی سے صلہ رحمی کی زیادہ تاکید ہے اور باپ کے چچا کی بہ نسبت اپنے چچا سے صلہ رحمی زیادہ اہم ہے۔ صلہ رحمی ہر اس طریقے سے ہو سکتی ہے، جو لوگوں کے نزدیک معروف ہے۔