عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال: كُنَّا خَلْفَ رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر فَقَرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فَثَقُلَتْ عليه القراءة، فلمَّا فَرَغَ قال: «لعلَّكم تَقْرَءُون خلف إِمَامِكُم» قلنا: نعم هذا يا رسول الله، قال: «لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لِمَنْ لم يَقْرَأ بها».
[حسن] - [رواه أبو داود والترمذي وأحمد]
المزيــد ...
عباده بن صامت رضي الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نمازِ فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے قراءت شروع کی مگر آپ ﷺ کے لیے (قرآن) پڑھنا مشکل ہو گیا۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:شاید تم اپنے امام کے پیچھے (کچھ) پڑھتے ہو؟ہم نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! یہی بات ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (امام کے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
[حَسَنْ] - [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نمازِ فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے قراءت شروع کی مگر آپ ﷺ کے لیے (قرآن) پڑھنا مشکل ہو گیا، یعنی آپ ﷺ کے لیے قرأت کرنا مشکل ہو گیا۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟ اس پرصحابہ کرام نے جواب دیا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ!۔ گویا کہ نبی ﷺ پر تلاوت کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن آپﷺ کو اس کی وجہ معلوم نہ تھی اسی لیے آپ ﷺ نے صحابہ سے پوچھا۔ جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں قرآن کی تلاوت میں الجھ رہا ہوں؟ ہو سکتا ہے کہ اس بوجھل پن کا سبب اس نقص کی وجہ سے ہو جو ان کے آپ ﷺ کی قرأت پر اکتفا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔ اور کامل شخص اپنے پیچھے موجود لوگوں کے نقص کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ سنت یہ ہے کہ مقتدی خاموشی سے پڑھے بایں طور کہ ہر کوئی اپنے آپ کو سنائے۔ نماز میں سورہ فاتحہ کی قراءت اکیلے نماز پڑھنے والے، امام اور مقتدی سب پر واجب ہے چاہے نماز سری ہو یا جہری کیونکہ بطورخاص سورہ فاتحہ پڑھنا دلائل سے ثابت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو ہدایت فرمائی کہ وہ سورہ فاتحہ پڑھنے کا اہتمام کریں: ”صرف سورہ فاتحہ پڑھا کرو“ ہو سکتا ہے کہ یہاں ممانعت جہرا پڑھنے سے ہو اور ہو سکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق فاتحہ سے زائد پڑھنے کے ساتھ ہو۔ یہ حکم اس لیے دیا تاکہ امام اور نمازی حضرات تشویش میں نہ پڑیں۔