عن ابن عباس رضي الله عنهما مرفوعاً: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم حِمَارًا مَوْسُومَ الوَجْهِ، فأنكر ذلك؟ فقال: «والله لا أَسِمُهُ إلا أقصى شيء من الوجه» وأمر بحماره فُكُوِيَ في جَاعِرَتَيْهِ، فهو أول من كوى الجاعرتين.
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے پر داغنے کا نشان تھا۔ آپ ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ (عباس رضی اللہ عنہ جو اس گدھے کے مالک تھے) نے کہا کہ اللہ کی قسم اب میں اس جگہ پر داغ دوں گا جو چہرے سے سب سے زیادہ دور ہے۔ عباس رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گدھے کی سرین پر داغ دے کر نشان لگایا گیا۔ عباس رضی اللہ عنہ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے سرین پر داغ لگایا۔
صحیح - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

شرح

حدیث کا مفہوم: نبی ﷺ نے ایک گدھا دیکھا، جسے اس کے چہرے میں داغ کر نشان زد کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ 'الوسم' سے مراد یہ ہے کہ جانور پر نشان لگانے کے لیے اسے (گرم لوہے سے) داغا جائے۔ جن لوگوں کے پاس مویشی ہوتے تھے، وہ ان پر نشان لگاتے تھے۔ ہر قبیلے کا ایک خاص نشان ہوتا یعنی دو خط، ایک خط، مربع ، دائرہ یا ہلال۔ غرض یہ کہ ہر قبیلے کا اپنا ایک خاص نشان ہوا کرتا تھا۔ اس نشان سے جانوروں کی حفاظت ہوتی تھی بایں طور کہ جب وہ گم ہو جاتے اور لوگوں کو ملتے تو وہ پہچان جاتے کہ یہ فلاں قبیلے کے ہیں اور انہیں اس قبیلے کے لوگوں کی طرف ہانک دیتے۔ ”فَقَالَ"c2">“ کہنے والے سے مراد عباس ابن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ہیں، جیسا کہ صحیح ابن حبان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بصراحت موجود ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ یا کسی جانور کو اس کے چہرے میں داغ کر نشان زد کر دیا۔ آپ ﷺ نے اسے دیکھا تو سخت ناراض ہوئے۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:میں اب اس کے جسم کے آخری حصے میں داغ کر نشان لگاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی سرین پرنشان لگایا"c2">“۔ یعنی جب انہیں ممانعت کا علم ہوا، تو انہوں نے قسم اٹھائی کہ وہ گدھے کے اس جگہ پر نشان لگائیں گے، جو اس کے چہرے سے سب سے زیادہ دور ہو گا۔ ابن حبان کی سابق الذکر روایت میں ہے: ”میں اس کے آخری حصے میں نشان لگاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی سرین کو نشان زد کیا"c2">“۔ پھر ان کے حکم کے مطابق ان کے گدھے کی سرین پر نشان لگایا گیا۔ جاعرۃ سے مراد گدھے کے جسم کا آخری حصہ ہے۔ یعنی ران، جہاں جانور دم مارتا رہتا ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”اگر نشان لگانا ہو تو مستحب یہ ہے کہ بھیڑ بکریوں کوان کے کانوں پر نشان لگایا جائے اور اونٹ اور گائے کو ان کے رانوں کی جڑ پر نشان زد کیا جائے۔ کیوںکہ یہ سخت جگہ ہوتی ہے اور یہاں نشان لگانے سے تکلیف کم ہوتی ہے۔ مزید برآں اس جگہ بال بھی کم ہوتے ہیں اور نشان خوب نمایاں رہتا ہے۔ نشان کا فائدہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس سے جانور ایک دوسرے سے ممتاز رہیں“۔ عباس رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے اپنے گدھے کو اس کے پچھلے حصے میں نشان لگایا تھا۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ایغور ہاؤسا
ترجمہ دیکھیں