عن عمران بن الحصين رضي الله عنهما : أنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أتَت النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَهِيَ حُبْلَى مِنَ الزِّنَا، فَقَالَتْ: يَا رسول الله، أصَبْتُ حَدّاً فَأقِمْهُ عَلَيَّ، فَدَعَا رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَلِيَّها، فقالَ: «أحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإذَا وَضَعَتْ فَأتِنِي بِهَا» فَفَعَلَ، فَأمَرَ بها النبيُّ صلى الله عليه وسلم فَشُدَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ أمَرَ بِهَا فَرُجِمَت، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا.
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
عمران بن حصين رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ: جُہینہ قبیلے کی ایک عورت جو زنا کی وجہ سے حاملہ تھی، نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں (جرم کا ارتکاب کرکے)حد کو پہنچ گئی ہوں، لہٰذا آپ وہ (حد) مجھ پر نافذ فرمائیں۔آپ ﷺ نے اس کے ولی (سرپرست) کو بلایا اور اس سے فرمایا: ”اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، پھر جب یہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لانا“۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ نبیﷺ نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کے کپڑے اس پر مضبوطی سے باندھ دیے گئے، پھر آپ ﷺ کے حکم سے اسے رجم (سنگسار) کردیا گیا۔ پھر آپ ﷺنے اس کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ یہ عورت زنا کی وجہ سے حاملہ تھی۔ اس نے عرض کیا: مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوگیا ہے جس سے حد واجب ہوجاتی ہے، لہٰذا آپ وہ (حد) مجھ پر نافذ فرمائیں۔ یعنی وہ خود نبی ﷺ سے یہ چاہ رہی تھی کہ آپ ﷺ اس پر حد نافذ کریں، اور وہ رجم کی حد تھی; کیوں کہ یہ عورت شادی شدہ تھی۔ نبی ﷺ نے اس کے سرپرست کو بلایا اور اس سے فرمایا: ”اس عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور جب یہ بچہ جن لےتو اسے میرے پاس لانا“۔ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ: ”اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو“ اس لیے تھا کیونکہ آپ ﷺ کو اس عورت پر ان کی طرف سے خوف محسوس ہوا اس لیے کہ انھیں عار اور عزت و آبرو پر غیرت لاحق ہوئی تھی، اورانھیں عار کا لاحق ہونا انہیں اس عورت کو تکلیف دینے پر ابھار سکتا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے متنبہ کرتے ہوئے انہیں اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی۔ نیز اس پر مزید مہربانی کرتے ہوئے ایسا کیا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھی۔ اور آپ ﷺ نے انہیں اس کے ساتھ حسن سلوک پر ابھارا کیونکہ لوگوں کے دلوں میں ایسی عورت کے بارے میں نفرت ہوتی ہے اور وہ اسے تکلیف دہ باتوں اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ چناچہ وضع حمل کے بعد اسے نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ اپنے بچے کا دودھ چھڑانے تک انتظار کرے۔ جب اس نے بچے کا دودھ چھڑا دیا تو وہ آپ ﷺ کے پاس آئی۔ چناں چہ آپ ﷺ نے اس پر حد نافذ کیا۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کے کپڑوں کو اس پر مضبوطی سے باندھ دیا جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ سنگسار کے وقت تڑپنے کی وجہ سے اس کا ستر ظاہر ہوجائے۔ پھر آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اسے رجم کردیا گیا اور آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔