عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال: «صلَّى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى صَلاتَيْ الْعَشِيِّ -قال ابن سِيرِينَ وسمَّاها أبو هُرَيْرَةَ، ولكن نسيت أنا- قال: فصلَّى بنا ركعتين، ثم سلَّم، فقام إلى خَشَبَةٍ مَعْرُوضَةٍ في المسجد، فَاتَّكَأَ عليها كأنه غضبان ووضع يده اليُمنى على اليُسرى، و شَبَّكَ بين أصابعه، وخرجت السَّرَعَانُ من أبواب المسجد فقالوا: قَصُرَتِ الصلاة -وفي القوم أبو بكر وعمر- فهابا أن يكلماه، وفي القوم رجل في يديه طُول، يقال له: ذو اليدين فقال: يا رسول الله، أنسيت؟ أم قَصُرَتِ الصلاة؟ قال: لم أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ، فقال: أكما يقول ذو اليدين؟ فقالوا: نعم، فتقدَّم فصلَّى ما ترك، ثم سلَّمَ، ثم كبَّر وسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه فكبَّر، ثم كبَّر وسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبَّر، فربما سألوه: ثم سلّم؟ قال: فَنُبِّئْتُ أن عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ قال: ثم سلَّمَ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے ہمیں دوپہر کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی۔ (ظہر یا عصر کی) _ابن سیرین نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نام تو لیا تھا، لیکن میں بھول گیا ہوں_ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد مسجد میں رکھی ایک لکڑی پر آپ صلى الله عليه وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ بہت ہی خفا ہوں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔ جو لوگ نماز پڑھ کر جلدی نکل جایا کرتے تھے، وہ مسجد کے دروازوں سے باہر نکل گئے۔ پھر لوگ کہنے لگے کہ نماز کم کر دی گئی ہے۔ حاضرین میں ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) بھی موجود تھے۔ لیکن انھیں آپ صلى الله عليه وسلم سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ حاضرین میں ایک شخص تھے، جن کے ہاتھ لمبے تھے اور انھیں ذوالیدین (دو ہاتھ والے) کہا جاتا تھا۔ انھوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا آپ صلى الله عليه وسلم بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا ذوالیدین صحیح کہہ رہے ہیں؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں! یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم آگے بڑھے اور باقی ماندہ نماز پڑھی۔ پھر سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اورجیسے آپ صلى الله عليه وسلم سجدہ کیا کرتے تھے، ویسے ہی یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔ پھرآپ صلى الله عليه وسلم نے سر مبارک اٹھایا اور تکبیر کہی، پھر تکبیر کہی اورجیسے آپ صلى الله عليه وسلم سجدہ کیا کرتے تھے ویسے ہی یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔ پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔ لوگوں نے (اس حدیث کے راوی) ابن سیرین سے پوچھا کہ کیا پھر سلام پھیردیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے بتایا گیا کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے سلام پھیردیا۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
رسولوں کی جماعت لوگوں میں سب سے زیادہ عقل و شعور کی حامل، ثابت قلب، متحمل مزاج اور اللہ کے حقوق ادا کرنے والی جماعت ہے۔ اس کے باوجود وہ بشری تقاضوں کی حدود سے باہر نہیں تھے۔ اور محمد عربی صلى الله عليه وسلم کی شخصیت تو ان صفات میں کامل ترین شخصیت تھی۔ لیکن بایں ہمہ آپ پر بشری حیثیت سے نسیان طاری ہوا؛ تاکہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے لیے سہو کے احکام مشروع فرماۓ۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے ساتھيوں کو ظہر يا عصر کي نماز پڑهائی۔ یہاں نماز کی تعیین ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کر دی تھی، لیکن ابن سیرین بھول گۓ تھے۔ جب آپ نے پہلی دو رکعتیں پڑھ لیں، تو سلام پھیردیا، چوں کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم کامل تھے، اس لیے آپ کو مکمل کام کے بغیر دلی اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ آپ نماز ميں کچھ کمی وخلل محسوس کر رہے تھے، ليکن اس کی وجہ معلوم نہیں کر پا رہے تھے۔ پھر آپ اسی غور وفکر ميں اس لکڑی سے ٹيک لگا کر کھڑے ہوئے جو سامنے سجدہ کرنے کی جگہ میں تھی اور اپنے ہاتھ کي انگليوں کو آپس ميں ملا لیے۔ جب کہ جلدی کرنے والے لوگ مسجد کے دروازوں سے نکل گئے اور آپس ميں سرگوشیاں کرنے لگے کہ ضرور کوئی نیا حکم سامنے آیا ہے، یعنی نماز کم کر دی گئی ہے۔ گويا وہ يہ سمجھ رہے تھے کہ نبی ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ عليہ وسلم بھول چوک سے بالا تر ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی آپ صلی اللہ عليہ وسم کی ہیبت کی وجہ سے کسی کی ہمت نہيں ہوئی کہ اس اہم مسئلے میں آپ سے بات شروع کرے۔ جب کہ اس وقت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی موجود تھے اور انھوں نے آپ کے اندر یک گونہ بے چینی بھی دیکھی تھی۔ لیکن ایک صحابی نے جنھیں لوگ ذوالیدین کہتے تھے اس خاموشی کو توڑا۔ وہ بولے کہ کيا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی ہے؟ انھوں نے یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی، کیوں کہ اس وقت دونوں باتوں کا احتمال تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے گمان کے مطابق فرمایا: "نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے"۔ اس وقت ذواليدين کو اس بات کا احساس ہوگيا کہ نماز کم نہيں کی گئ ہے، جب کہ انھیں یہ یقین تھا کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے صرف دو ہی رکعات پڑھی ہیں، اس سے وہ سمجھ گئے کہ آپ بھول گئے ہیں۔ اس لیے انہوں نے کہا :بلکہ آپ بھول گئے ہيں! آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ذوالیدین کی بات کي تصديق ضروری سمجھی، کیوں کہ وہ نماز پوری ہو جانے کے سلسلے میں آپ کے گمان کے خلاف تھی۔ چنانچہ ان کی تائید کے ارادے سے اپنے ارد گرد موجود صحابہ سے کہا: کيا ذواليدين جو کہہ رہے ہيں وہ سچ ہے کہ ميں نے صرف دو ہی رکعت نماز پڑھی ہے؟ صحابۂ کرام نے جواب ديا: ہاں! اب اللہ کے رسول صلی الہ عليہ وسلم آگے بڑھے، چھوٹی ہوئی نماز پڑھی۔ تشہد کے بعد سلام پھیرا۔ پھر بيٹھے بيٹھے تکبیر کہی اور نماز کے اندر کے سجدے کی طرح یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا۔ پھر سجدے سے سر اٹھایا اورتکبير کہی۔ پہر تکبیر کہی اور دوسرے سجدوں کی طرح یا ان سے بھی لمبا سجدہ کیا۔ پہر اپنا سر اٹھایا اور تکبير کہی۔ پھر سلام پھیرا اور تشہد ميں نہيں بيٹھے۔