عن أبي موسى رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «فَنَاءُ أُمَّتي بالطَّعْن والطَّاعون». فقيل: يا رسول الله، هذا الطَّعْنُ قد عَرَفْناه، فما الطَّاعون؟ قال: «وَخْزُ أعدائِكم مِن الجِنِّ، وفي كلٍّ شُهَداء».
[صحيح] - [رواه أحمد]
المزيــد ...
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی ہلاکت، طعنہ زنی اور طاعون میں ہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! طعنہ زنی کو تو ہم جانتے ہیں، طاعون کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے دشمن جنات کا طعنہ ہے۔ اور (طاعون ہو یا طعنہ زنی) ہر ایک میں شہداء ہیں۔
[صحیح] - [اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
نبی ﷺ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ اس امت کے اکثر افراد کی موت و ہلاکت، دو چیزوں سے ہوگی: پہلی یہ کہ ان کے اور کفار کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ہتھیاروں سے ان کے قتل اور خود مسلمانوں کے درمیان وقوع پذیر ہونے والے فتنوں میں ایک دوسرے کو قتل کی وجہ سے ہو ہوگا۔ دوسری چیز طاعون ہے جو انتہائی تیزی سے پھیلنے والی موت ہے اور یہ مسلمانوں کے دشمن کافر جنات کی طعنہ زنی کے سبب ہوتی ہے، اس کے اور طاعون کے لازمی اثر یعنی جراثیم وغیرہ کے پائے جانے میں کوئی منافات نہیں، یہ جراثیم وغیرہ گویا کہ علامت اور نشانی ہے جس سے طاعون کا پتہ چلتا ہے جو کہ اصل میں سرکش جنوں کا طعنہ ہے۔ اور جس مسلمان کی قتل یا طاعون سے موت واقع ہوجائے تو وہ شہید کا درجہ پائے گا۔ اس حدیث کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے دعاء مقصود ہے یعنی نبی ﷺ نے اپنی امت کے حق میں دعا فرمائی کہ ان دو قسموں میں سے کسی ایک کے ذریعہ انہیں موت نصیب ہو تاکہ انہیں شہادت کا مرتبہ حاصل ہو، تاہم پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سب سے زیادہ جاننے والی ہے!