عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: «أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ خَالَةُ ابْنِ عباس إلى النبي صلى الله عليه وسلم أَقِطًا وَسَمْنًا وَأَضُبًّا، فأَكَل النبي صلى الله عليه وسلم من الأَقِطِ وَالسَّمْنِ، وَتَرَكَ الضَّبَّ تَقَذُّرًا»، قال ابن عباس: «فَأُكِلَ على مائدة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ولو كان حراما ما أُكِلَ على مائدة رسول الله صلى الله عليه وسلم ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کی خالہ ام حفید نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر، گھی اور سانڈے ہدیے کے طور پر بھیجے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور سانڈہ کو کراہت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھایا گیا۔ اگر وہ حرام ہوتا، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھایا نہ جاتا"۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اس حدیث میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کر رہے ہیں کہ ان کی خالہ ام حفید نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر، گھی اور سانڈے ہدیہ کیا، تو آپ نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور سانڈے کو چھوڑ دیا؛ کیونکہ آپ کو اس سے گھن محسوس ہوتی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس سے طبعی طور پر کراہت محسوس کرتے تھے، دینی طور پر نہیں۔ خود آپ نے اسے نہ کھانے کا سبب یہ بیان کیا ہے، جیسا کہ اس حدیث کی دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ وہ آپ کی قوم کی سر زمین میں نہیں ہوتا ہے۔ آپ کا یہ سبب بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسے کھانے سے گريز دینی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ طبعی تنفر کی وجہ سے کیا۔ پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سانڈہ کے مباح ہونے کی دلیل اس بات سے لی ہے کہ اسے آپ کے دسترخوان پر کھایا گیا، کیونکہ اگر وہ حرام ہوتا، تو آپ اس بات کو گوارہ نہیں کرتے کہ اسے آپ کے دسترخوان پر کھایا جائے۔