عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال: «كان إيلاء أهل الجاهلية السنة والسنتين، ثم وَقَّتَ الله الإيلاء فمن كان إيلاؤُه دون أربعة أشهر فليس بإيلاء».
[قال الهيثمي في مجمع الزوائد: رجاله رجال الصحيح] - [رواه البيهقي وسعيد بن منصور والطبراني]
المزيــد ...
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اہل جاہلیت کا ’ایلاء‘ سال یا دو سال کے لیے ہوا کرتا تھا۔ بعد ازاں اللہ تعالی نے اس کی مدت معین کر دی۔ چنانچہ جس شخص کا ’ایلاء‘ چار ماہ سے کم ہوا وہ ایلاء شمار نہیں ہو گا۔
[مجھے (اس کے بارے میں) شیخ البانی رحمہ اللہ کا کوئی حکم نہیں ملا۔] - [اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ - اسے سعید بن منصور نے روایت کیا ہے۔]
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اس اثر سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اہلِ جاہلیت یعنی نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے کے لوگ اپنی بیویوں سے ایک سال یا دو سال کے لیے ’ایلاء‘ کیا کرتے تھے بالکل ایسے ہی جیسے وہ طلاقیں بھی تین سے زیادہ دیا کرتے تھے۔ پھر جوں ہی عدت ختم ہونے کے قریب آتی تو آدمی اپنی بیوی سے رجوع کر لیتا اور پھر اسے طلاق دے دیتا۔ ’ایلاء‘ بھی اسی طرح تھا اور اس سے عورتوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے لیے ایک معین مدت مقرر فرما دی یعنی چار ماہ جس میں آدمی ’ایلاء‘ کرنے والا سمجھا جائے گا ۔ جو شخص اس مدت سے زیادہ کے لیے ایلاء کرتا ہے وہ یا تو طلاق دے دے یا پھر اپنی بیوی سے رجوع کر لے اور جو چار ماہ سے کم کے لیے ایلاء کر تا ہے اس کا یہ ایلاء (شرعی) ایلاء نہیں ہو گا بلکہ یہ وہ ایلاء ہو گا جو شوہر اپنی بیوی کی تادیب اور اس کی اصلاح کے لیے کیا کرتا ہے اور اس کا وہ حکم نہیں ہوتا جو (شرعی و اصطلاحی) ایلاء کا ہوتا ہے۔