عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: كَشف رسول الله صلى الله عليه وسلم السِّتَارة والناس صُفوف خَلف أبي بَكر، فقال: «أيها الناس، إنه لم يَبْق من مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إلا الُّرؤيا الصَّالحة، يَراها المُسلم، أو تُرى له، ألا وإنِّي نُهِيت أن أقْرَأ القرآن راكِعا أو ساجِدا، فأما الرُّكوع فعظِّموا فيه الرَّب عز وجل ، وأما السُّجود فَاجْتَهِدُوا في الدُّعاء، فَقَمِنٌ أن يُستَجاب لكم».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پردہ اٹھایا، (اس وقت) لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صف بستہ تھے۔ آپ نے فرمایا: ”لوگو ! نبوت کی بشارتوں میں سے اب صرف سچے خواب باقی رہ گئے ہیں، جو مسلمان خود دیکھے گا یا اس کے لیے (کسی دوسرے کو) دکھایا جائے گا۔ خبردار رہو ! بلاشبہ مجھے رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، جہاں تک رکوع کا تعلق ہے، اس میں اپنے رب عزوجل کی عظمت بیان کرو اور جہاں تک سجدے کا تعلق ہے، اس میں خوب دعا کرو، یہ اس لائق ہے کہ تمھارے حق میں قبول کرلی جائے“۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
آپ ﷺ نے وہ پردہ اٹھایا، جو آپ کے گھر کے دروازے اور دیوار پر لٹک رہا تھا، لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفوں میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺ اپنی بیماری کی وجہ سے لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکتے تھے۔ آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ آپ نے فرمایا: ”لوگو ! نبوت کی بشارتوں میں سے اب صرف سچے خواب باقی رہ گئے ہیں“ یعنی آپ کی موت اور وحی کے منقطع ہونے کے بعد نبوت کے مبشرات میں سے صرف سچے خواب باقی رہیں گے، جسے اہلِ ایمان دیکھتے ہیں، خوش خبری حاصل کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور ان کی ثابت قدمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خوابوں کا نبوت میں سے ہونا اس لیے ہے کہ ابتداے نبوت میں آپ ﷺ خواب دیکھا کرتے تھے، جو صبح کی روشنی کی طرح واقع ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ آپ ﷺ کی نبوت کے اجزا میں سے ہے۔ ”إلا المُبَشِّرَاتُ“ مبشِّرات سے تعبیر کرنا اکثر اور غالب کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ کچھ خواب اللہ کی طرف سے ڈرانے کے لیے بھی ہوتے ہیں۔ وہ سچے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مؤمن کو دکھاتا ہے؛ تاکہ وہ اس سے پہلے اس کی تیاری کرلے۔ لہٰذا سچے خواب یا تو مؤمن کے لیے خوش خبری ہوتے ہیں یا اسے غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ”يَراها المُسلم، أو تُرى له“ یعنی مسلمان خود دیکھے یا کوئی اور دیکھے۔ ”بلاشبہ مجھے رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو رکوع اور سجود کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرنے سے روکا ہے، جس چیز سے اللہ کے رسول ﷺ کو روکا جائے، وہ اصل میں اس لیے ہے کہ امت آپ کی اتباع کرے، ہاں اگر آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہونے پر دلیل موجود ہو، تو امت کے لیے اتباع ضروری نہیں۔ یہ اس وقت ہے کہ جب رکوع اور سجدے میں قرآن کی تلاوت کا ارادہ ہو، اگر دعا کا ارادہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حدیث میں ہے ”وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی“ یعنی ہر شخص کے لیے وہی ہے، جس کی اس نے نیت کی ہے۔ رکوع اور سجدے میں تلاوتِ قرآن سے روکنا شاید اس لیے ہے کہ یہ ذلت اور عاجزی کی حالتیں ہیں، مزید یہ کہ سجدہ زمین پر ہوتا ہے، اس حالت میں قرآن کی تلاوت کرنا مناسب نہیں۔ ”جہاں تک رکوع کا تعلق ہے، اس میں اپنے رب عزوجل کی عظمت بیان کرو“ یعنی رکوع کی حالت میں سبحان ربي العظيم اور اس طرح دوسری تسبیحات اور تمجیدات پڑھے، جن کا رکوع میں پڑھنا منقول ہے۔ ”جہاں تک سجدے کا تعلق ہے، اس میں خوب دعا کرو“ یعنی نمازی کو سجدے کی حالت میں زیادہ دعائیں مانگنا چاہیے، اس لیے کہ اس می دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں آپ ﷺ سے ثابت ہے: ”بندہ اپنے رب سے سب سے قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لیے سجدے میں زیادہ دعائیں مانگا کرو“۔ تاہم سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى کے ساتھ دعائیں مانگی جاۓ؛ اس لیے کہ یہ کہنا واجب ہے۔ ”یہ اس لائق ہے کہ تمھارے حق میں قبول کرلی جائے“ یعنی سجدے میں تمھاری دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے سب سے قریب ہوتا ہے، سجدہ لمبی اور بکثرت دعا کرنے کا مقام ہے، جب انسان اکیلے نماز پڑھے یا ایسے لوگوں کے ساتھ پڑھے جو طوالت پسند کرتے ہوں۔