عن حذيفة رضي الله عنه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فافتتح البقرة، فقلت: يركع عند المائة، ثم مضى، فقلت: يصلي بها في ركعة، فمضى، فقلت: يركع بها، ثم افتتح النساء، فقرأها، ثم افتتح آل عمران، فقرأها، يقرأ مُتَرَسِّلًا، إذا مر بآية فيها تسبيح سبح، وإذا مر بسؤال سأل، وإذا مر بتعوذ تعوذ، ثم ركع، فجعل يقول: «سبحان ربي العظيم»، فكان ركوعه نحوًا من قيامه، ثم قال: «سمع الله لمن حمده»، ثم قام طويلا قريبا مما ركع، ثم سجد، فقال: «سبحان ربي الأعلى»، فكان سجوده قريبا من قيامه. قال: وفي حديث جرير من الزيادة، فقال: «سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
حذیفہ رضی اللہ عنہ خبر دے رہے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ رات کی نماز پڑھی۔ اور یہ کہ آپ ﷺ اپنے رکوع میں ”سُبحان رَبِّيَ العظيم“ اور اپنے سجدے میں ”سُبحان رَبِّيَ الأعلى“ پڑھتے تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رکوع اور سجدے میں یہ ذکر کرنا مشروع ہے۔
”وما مَرَّ بآية رَحْمَة إلا وقَف عِندها فَسأل“ یعنی جب آپ ﷺ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں جنت اور نعمتوں کا تذکرہ ہوتا، تو آپ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کئے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے، چنانچہ آپ یہ دعا کرتے: ”اللَّهم إني أسألك الجنَّة“ (اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں)، اس موقع پر آدمی اللہ تعالی کے فضل کا بھی سوال کرسکتا ہے، اگرچہ وہ انبیا، یا اولیا کی تعریف و ستائش یا اسی طرح کی آیات سے گزرے۔ چنانچہ وہ اس طرح دعا کر سکتا ہے: ”أسْأَلُ اللهَ مِنْ فَضْلِهِ“ (میں اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرتا ہوں)، یا یہ دعا کہ: ”أسْأَلُ اللهَ أنْ يُلْحِقْنِي بِهِمْ“ (میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے ان کی رفاقت نصیب فرمائے)، یا اس جیسی دعائیں۔
”ولا بآية عَذاب إلا وقَف عِندها فتعوَّذ“ یعنی جب آپ ﷺ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب، جہنم اور جہنمیوں کے احوال کا تذکرہ ہوتا، تو اس سے پناہ مانگے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے۔
لہٰذا اس بارے میں آپ ﷺ کی پیروی کرنا مستحب ہے۔ لیکن علماء کے ایک مجموعہ نے اسے نفل نمازوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ سے فرض نمازوں کے اندر یہ عمل منقول نہیں ہے، باوجود اس کے کہفرض نمازوں میں آپ ﷺ کی قراءت کی کیفیت تذکرہ بہت سے صحابہ نے کیا ہے۔ اگر کبھی کبھار فرض نمازوں میں ایسا کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ جو چیز فرض نماز میں ثابت ہے اسے نفل میں کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح اس کے برعکس بھی۔ ہاں اگر تخصیص پر کوئی دلیل موجود ہو تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں۔
صحیح - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ خبر دے رہے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ رات کی نماز پڑھی۔ اور یہ کہ آپ ﷺ اپنے رکوع میں ”سُبحان رَبِّيَ العظيم“ اور اپنے سجدے میں ”سُبحان رَبِّيَ الأعلى“ پڑھتے تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رکوع اور سجدے میں یہ ذکر کرنا مشروع ہے۔ ”وما مَرَّ بآية رَحْمَة إلا وقَف عِندها فَسأل“ یعنی جب آپ ﷺ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں جنت اور نعمتوں کا تذکرہ ہوتا، تو آپ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کئے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے، چنانچہ آپ یہ دعا کرتے: ”اللَّهم إني أسألك الجنَّة“ (اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں)، اس موقع پر آدمی اللہ تعالی کے فضل کا بھی سوال کرسکتا ہے، اگرچہ وہ انبیا، یا اولیا کی تعریف و ستائش یا اسی طرح کی آیات سے گزرے۔ چنانچہ وہ اس طرح دعا کر سکتا ہے: ”أسْأَلُ اللهَ مِنْ فَضْلِهِ“ (میں اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرتا ہوں)، یا یہ دعا کہ: ”أسْأَلُ اللهَ أنْ يُلْحِقْنِي بِهِمْ“ (میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے ان کی رفاقت نصیب فرمائے)، یا اس جیسی دعائیں۔ ”ولا بآية عَذاب إلا وقَف عِندها فتعوَّذ“ یعنی جب آپ ﷺ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب، جہنم اور جہنمیوں کے احوال کا تذکرہ ہوتا، تو اس سے پناہ مانگے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے۔ لہٰذا اس بارے میں آپ ﷺ کی پیروی کرنا مستحب ہے۔ لیکن علماء کے ایک مجموعہ نے اسے نفل نمازوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ سے فرض نمازوں کے اندر یہ عمل منقول نہیں ہے، باوجود اس کے کہفرض نمازوں میں آپ ﷺ کی قراءت کی کیفیت تذکرہ بہت سے صحابہ نے کیا ہے۔ اگر کبھی کبھار فرض نمازوں میں ایسا کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ جو چیز فرض نماز میں ثابت ہے اسے نفل میں کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح اس کے برعکس بھی۔ ہاں اگر تخصیص پر کوئی دلیل موجود ہو تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں۔