عن أبي هريرة رضي الله عنه ، أن ثُمَامَة الحَنَفِي أُسِر، فكان النبي صلى الله عليه وسلم يَغْدُو إليه، فيقول: «ما عندك يا ثُمَامَة؟»، فيقول: إن تَقْتُل تَقْتُل ذَا دَم، وإن تَمُنَّ تَمُنَّ على شَاكِر، وإن تُرِدَّ المال نُعْطِ منه ما شِئْتَ. وكان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يُحِبُّون الفِدَاءَ، ويقولون: ما نَصنع بقَتْل هذا؟ فمرَّ عليه النبي صلى الله عليه وسلم يومًا، فأسْلَم، فحَلَّه، وبَعث به إلى حَائِط أبِي طلْحَة، فأَمَرَه أن يغتسل فاغَتَسَل، وصلَّى ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : «لقد حَسُن إسلام أخِيكُم».
[صحيح] - [رواه عبد الرزاق، أصله متفق عليه]
المزيــد ...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ثمامہ حنفی کو قیدی بنایا گیا تو صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ (گھر سے نکل کر) اس کے پاس آئے اور پوچھا: ثمامہ! تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا: اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔ اور اگر آپ مال ودولت چاہتے ہیں تو ہم منہ مانگا دیں گے۔ صحابۂ کرام کی خواہش تھی کہ فدیہ لے لیں، وہ کہتے تھے، انھیں قتل کرنے میں کیا فائدہ ہے؟ ایک آپ ﷺ ان کے پاس سے گزرے تو ثمامہ نے اسلام قبول کرلیا۔آپ ﷺ نے اُن کی بیڑیاں کھول دیں اور انھیں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں بھیج دیا اور حکم دیا کہ وہاں جاکر غسل کرلیں، انھوں نے غسل کیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لَقَدْ حَسُنَ إسْلَامُ أخِيكُم“ بے شک تمہارے بھائی کا اسلام بہت اچھا رہا۔
صحیح - اسے امام عبد الرزّاق نے روایت کیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے کہ جب ثمامہ کو قیدی بنا لیا گیا اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا جیسا کہ بعض روایات میں یہ موجود ہے۔رسول اللہ ﷺ اس کی قید کے بعد صبح کے وقت اس کے پاس ملاقات کے لیے آئے اور مسلسل تین دن تک آپ ﷺ اس کے پاس آتے رہے۔(جیسا کہ دیگر روایات میں موجود ہے) اور ہر ملاقات پر اس کو یہی پوچھتے رہے کہ ثمامہ تمہارا کیا حال ہے؟یعنی تو کیا سوچتا ہے کہ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟تو اس نے جواب دیا کہ ”إن تَقْتُل تَقْتُل ذَا دَم“ اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔یعنی اس کی طرف سے خون کا مطالبہ کرنے والے بھی ہیں اور احسان کا بدلہ دینے والے بھی "وإن تَمُنَّ تَمُنَّ على شَاكِر" ۔صحیحین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ”وإن تُنْعِم تُنْعِم على شاكر“ یعنی اگر تو مجھ پر معافی کا احسان کرے گا تو معاف کرنا صاحب کرم لوگوں کا شیوا ہے اور تیری یہ نیکی ہم رائیگاں نہیں جانے دیں گے کیونکہ آپ اس شخص پر احسان کریں گے جو اس کی باکمال حفاظت کرتا ہے اور اس کے ساتھ کی گئی نیکی کو کبھی بھولتا نہیں۔اور اگر تو مال چاہتا ہے یعنی اگر تو بے بہا مال چاہتا ہے تو ہم تجھے اتنا مال دیں گے یعنی جتنا تو چاہتا ہے۔ ”وَكَانَ أَصْحَابُ النَّبيِّ ﷺ يُحِبُّون الفِدَاءَ، ويقولون: ما نَصنع بقَتِل هذا؟“ صحابہ کرام یہی چاہتے تھے کہ اس سے فدیہ لے لیا جائے اس کو قتل کر کے کیا لیں گے؟یعنی صحابہ یہ چاہتے تھے کہ اس سے فدیہ لیا جائے چاہے تو اس کی حیثیت کے مطابق مال لے لیا جائے یا کفار کے قیدی کے بدلے مسلمان قیدی چھڑا لیے جائیں کیونکہ مال یا مسلم قیدیوں کی رہائی مسلمانوں کے لیے زیادہ فائدہ مند اور بہتر ہے ۔اگر اسے قتل کر دیں گے تو اس میں فدیہ کی نسبت فائدہ کم ہے۔ایک دن رسول اللہ ﷺ اس کے پاس سے گزرے ،اس کو سلام کیا اور اسے آزاد کر دیا اور یہ رسول اللہ ﷺ کا آخری مرتبہ کا آنا تھا جس میں آپ ﷺ ثمامہ کے پاس آ کر یہ پوچھتے تھے کہ ’ثمامہ تیرا کیا حال ہے؟‘اس نے اسلام قبول کر لیا اور آپ ﷺ نے اسے آزاد کر دیا۔صحیحین کی روایت کے مطابق آپ ﷺ نے اس کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا اور اس کو ابو طلحہ کے باغ کی طرف بھیجا۔یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے س کو ابو طلحہ کے باغ کی طرف بھیجا جس میں پانی اور کھجوریں تھیں۔جیساکہ بعض دوسری روایات میں ہے کہ اس کو مسجد کے قریب کھجور کی طرف بھیجا،اس کو حکم دیا کہ غسل کرے ،اس نے غسل کیا اور دو رکعتیں پڑھیں یعنی قبول اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کو حکم دیا کہ غسل کرے اور اس نے آپ کے حکم کی تعمیل میں غسل کیا اور پاک ہونے کے بعد دو رکعتیں ادا کیں۔اس حدیث کے مطابق یہ اس کے لیے مشروع غسل تھا جیسا کہ مسند احمد اور ترمذی میں بھی ہے کہ :قیس بن عاصم نے جب اسلام قبول کیا تو نبی کریمﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ غسل کرے۔علامہ البانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے: لقد حَسُن إسلام أخِيكُم فرما کر ثمامہ کے قبول اسلام کی خوشخبری صحابہ کرام کو دی بلکہ بہترین اسلام کی۔ نبی کریم ﷺ کا اس کے اسلام کی تعریف کرنا اس لیے تھا تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے۔ اور یہ بھی امکان ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریمﷺ کی طرف وحی تھی۔